آفتابِ ولایت، عالم با عمل، پیرِ روشن ضمیر، شیخ المشائخ،
قطب الاقطاب حضرت علامہ پیر سیّد جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
٭۔تعارف و ولادت:
حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت با
سعادت مورخہ04جون 1972(بمطابق ۲۲ ربیع الثانی۲ ۳۹ ۱) ہجری
سید گھرانے میں ہوئی ولادت کے وقت آپ کے والد ماجد قبلہ عالم جناب حضرت علامہ پیر سید
اعظم علی شاہ قدس سرہٗ نے آپ کا نام سید جعفر علی شاہ رکھا۔آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔
آپ کا بچپن عام بچوں سے بالکل مختلف تھا آپ بہت زیادہ شائستگی
اور صفائی پسند تھے۔پاکیزہ اخلاق کے مالک اور مہمان نواز تھے۔خاموش طبع تھے شروع ہی
سے چہرہ مبارک سے جمال اور جلال ظاہر تھا۔
دق و صفا میں کامل، صدق و صفا میں کامل، متابعت شرع و سنت رسول اللہ ﷺ میں کوشاں،عارف
و کامل، صاحبِ احوال جلیلہ تھے۔ اپنے وقت کے یگانہ شیخ، علوم و معارف میں قدم راسخ
فتاویٰ دینیہ میں یدِ بیضاء اور احکامِ شرعیہ میں دستگاہِ کامل رکھتے تھے۔
٭۔علومِ ظاہری و باطنی:
آپ نے میڑک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول کمانوالہ شریف سے پاس
کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ (ایف اے) کا امتحان گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے پاس کیا۔ مزید
دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار جناب حضرت علامہ
پیر سید اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت سے دارالعلوم دو دروازہ سیالکوٹ میں
اپنے وقت کے عظیم محدث و مفسر جناب علامہ حافظ محمد عالم محدث سیالکوٹی رحمۃ اللہ علیہ،اور
مولانا محمد صدیق سالک ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ سے علومِ دینیہ کی تکمیل کی وہیں سے سند
بھی حاصل کی۔آپ فقیہہ، محدّث، محقق، مدقق، منصف مزاج، جامعِ علومِ عقلیہ و نقلیہ، اور
فقہ اصول میں مرتبہ اجتہاد تک پہنچے ہوئے تھے۔ علمِ تفسیروکلام اور تصوّف میں یدِ طولیٰ
رکھتے تھے جودتِ طبع، قوتِ فکر اور سلامتی عقل زائد الوصف حاصل تھی۔
آپ نے علومِ ظاہری و باطنی اپنے والدبزرگوار جناب قبلہ عالم
حضور پیر سید اعظم علی شاہ قدس سرہ سے حاصل کیے۔ اپنے والد بزرگوار سے خلافت و اجازت
بیعت سے سرفراز ہوئے باپ اور بیٹے میں انتہائی درجہ کی محبت تھی۔اپنے قبلہ والد صاحب
جناب پیر سید اعظم علی شاہ قدس سر ہ العزیز کے صحیح جانشین ہوئے۔ورع، تقوی، اور پابندی
سنت رسول اللہ میں سلف صالحین کی یادگار تھے۔
٭۔تبلیغِ دین:
آپ کی خطابت اور وعظ پُر تاثیر ہوا کرتی اور سامعین کی دل کی
دنیا بدل جایا کرتی تھی۔ تبلیغِ دین کے لیے آپ کی زندگی وقف تھی جس کے نتیجہ میں بے
شمار بھٹکے اور بے راہ روی کا شکار لوگ راہِ راست پر گامزن ہوئے۔
آپ کامل نمونہ بلحاظ علم و فضل خاندانِ کمانوالہ شریف کے چشم
و چراغ تھے آپ کے وجودِ مسعود نے خاندان کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ آپ نے علم و
فضل کے دریا بہا دیے بے شمار انسانوں نے اس بحرِ بے پایاں سے اپنی تشنگی دور کی۔
آپ کی صحبت میں عجیب اثر تھا اپنوں کا کیاذکر بیگانے بھی دیکھتے
تو پکار اٹھتے کہ یہ زمانہ کے ولی کامل ہیں۔ بے شمار انسان آپ کی صحبت کی بدولت راہِ
راست پر آئے اور دین اسلام کو مکمل طور پر اپنا کر اپنی زندگیوں کو سنوارا اور سلسلہ
عالیہ نقشبندیہ میں داخل ہوئے۔ آپ کی توجہ اس قدر زبردست تھی کہ جس پر بھی خصوصیت سے
سے نظر پڑگئی اس کا بیڑہ پار ہوگیا۔
نہایت صاحبِ کمال
اور صاحبِ لفظ تھے جوبات بھی زبان مبارک سے نکلتی ضرور پوری ہوتی۔درجہ ولایت میں آپ
انتہائی مرتبہ پر فائز تھے۔ رعب و جلال اورقُدسی صفات کے مالک تھے علم و عمل اور زہد
و تقوی میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے زہدو ریاضت میں عظیم مقامات کے مالک تھے۔
جس طرح چاند کی روشنی اس کی کرنوں سے ہوتی ہے اور حضرت پیر سیّد
اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ماہتاب علوم معرفت تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند ارجمندپیر
طریقت، رہبر شریعت، مخزن علم وحکمت حضرت پیر سیّد جعفر علی شاہ قدس سرہ صحیح معنوں
میں اس ماہتاب لازوال کی نورانی کرن تھے۔ وہی ان کا اندازِ تبلیغ، وہی ان جیسی محبت
و شفقت وہی ان کی طرح فیوض و برکات کی خیرات کا انداز، غرضیکہ حضرت پیر سیّد جعفر علی
شاہ قدس سرہ کا حسن تبلیغ متلاشیان منزل صداقت کی خود شناسی سے لے کے خدا آگاہی کی
منازل سے ہمکنار کر رہاتھا۔
آپ حضرت سیّد جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ مریدوں کے دلوں کی دھڑکن
اور آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کمانوالہ شریف سیالکوٹ سے وابستہ بے شمار ارادت مندوں
کی آنکھوں کا تارا تھے۔ آپ نے اپنی زندگی کا بہت بڑا حصہ اپنے عظیم والد اور مرشد حضرت
پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں گزارا یہی وجہ ہے کہ آپ کی مجلس
ایمانی میں چند ساعتیں گزار کر یہی اندازہ ہونے لگتا تھا کہ ہم حضرت پیر سیّد اعظم
علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلسِ اقدس کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
آپ نے حقیقی معنوں میں دینِ حق کی بہت تبلیغ کی جس کی وجہ سے
بہت سے لوگوں کو راہِ حق پر چلایا اور لوگوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا اور بے پناہ
لوگوں نے آپ سے فیوض و برکات حاصل کیے اور لوگوں کے دلوں کو عشقِ رسول ﷺ سے منور فرمایا۔
موجودہ دور میں آپ نے بہت سے دینی اور مذہبی شخصیات کو دیکھا
ہوگا مگر پیر سید جعفر علی شاہ قدس سرہ العزیز جیسا نہ دیکھا نہ کسی کو کہیں پایا۔
آپ کی گفتگو سے دل میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت جاگزیں ہوتی۔علم میں اضافہ ہوتا
او ر دین اسلام کو اچھی طرح سمجھنے کا پتہ بھی چلتا۔
والد ماجد جناب علامہ پیر سید اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے
وصال شریف کے بعد مسندِرشدو ہدایت پر متمکن ہوئے۔ آپ نہایت حلیم الطبع اور ملنسار تھے
مہمان نوازی اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی ہوئی تھی۔ آپ کی تواضع ضرب المثل تھی زہدو
ریاضت میں کمال کے درجہ پر فائز تھے شب بیداری آپ کا معمول تھا ہر وقت باوضو رہتے تھے۔
٭۔حلیہ مبارک:
آپ مضبوط جسم کے مالک تھے چہرہ انور سرخ اور سفید تھا کشادہ
پیشانی، لب مبارک پتلے،دہن مبارک خوبصورت،تبسم فرماتے تو اگلے دانت چمکدار نظر آتے۔چہرہ
انور سے انوارِ الٰہی درخشاں تھے۔ ہر شخص آپ کا نورانی چہر ہ دیکھ کر مبہوت و فریفتہ
ہو جاتا تھا۔چشمانِ مبارک عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ سے مخمور تھیں۔ہاتھوں کی انگلیا
ں نرم او ر دراز تھیں، سرمبارک پر ہمیشہ سفیددستار باندھا کرتے تھے، ریش مبارک سنت
نبوی ﷺ کے مطابق تھی چلتے وقت ہلکا سا عصا ہاتھ میں رکھتے تھے۔
سادگی میں بے مثال تھے۔ اگر چاہتے تو اچھے سے اچھا کھانا کھا
سکتے تھے اور قیمتی لباس بھی پہن سکتے تھے مگر آپ نے سنت رسول ﷺ کے مطابق فقیری میں
زندگی گزار دی ہر ایک سے انتہائی شفقت اور خوش خلقی سے پیش آتے تھے۔تمام عمر سادگی
میں گزار دی۔
آپ کی سادگی اور حُسنِ خلق دیکھ کر ہر شخص آپکا دیوانہ ہوجاتا
اور ہر ایک یہی سمجھتا کہ مجھ سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ہر امیر، غریب حتی کہ اپنے گھر
والوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ اخلاق ایک جیسا ہوتا۔
٭۔اخلاقِ عالیہ:
آپ اخلاقِ عالیہ صفاتِ حسنہ سے متصف تھے۔ اپنا ہو یا غیر ہر
ایک کے ساتھ انتہائی شفقت اور محبت سے پیش آتے تھے جو بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا
فیض سے مستفید ہوتا آپ یارانِ طریقت کے ساتھ ایسا مہربانہ اور مشفقانہ برتاؤ فرماتے
کہ ہر کوئی یہی سمجھتا کہ آپ سرکار مجھ پر سب سے زیادہ شفقت فرماتے ہیں۔
آپ اپنے جملہ اعمال و اقوال میں نبی کریم ﷺ کی سنت کے تابع تھے۔
صاحبِ علم ہونے کے ساتھ صاحبِ عمل بھی تھے۔اخلاقِ کریمانہ اور اوصافِ حمیدہ کے مالک
تھے۔یتیموں، بیواؤں اور مسکینوں کی حتی الوسع مدد فرماتے تھے۔آپ کی ہر بات میں نکتہ
ہو تا تھا کلام اسرار سے پُر ہوتا تھا مگر نہایت آسان طریقہ سے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل
کو اس طرح ذہن نشین کراتے تھے کہ سامعین با آسانی سمجھ جاتے۔سرکار پیرو مرشد اکثر فرماتے
کہ اگر کوئی یہ دیکھنا چاہے کہ پیر اور مرید کا رشتہ کیسا ہونا چاہیے تو وہ حضرت ابو
بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت کا بغور مطالعہ کرے۔
دماغوں سے آؤ دلوں کی طرف
اٹھاؤ قدم منزلوں کی طرف
فقیروں کی صحبت بڑی چیز ہے
کبھی آؤ ان محفلوں کی طرف
٭۔والدین کی خدمت:
آپ اپنے والدین کے بہت ہی زیادہ خدمت گار اور تابعدار تھے ”ماں
کے قدموں تلے جنت ہے“ پر ہر دم عمل پیرا رہے بلکہ اپنی والدہ محترمہ کی وفات کے بعد
بھی آپ نے وصیت کر دی تھی کہ میری قبر میری والدہ محترمہ کے قدموں میں بنائی جائے۔
چنانچہ آپ کے وصال کے بعد وصیت کے مطابق صاحبزادگان نے آپ کی قبر مبارک آپ کی والدہ
محترمہ کے قدموں میں بنائی۔
٭۔اتباعِ سُنّت:
جن کی ہر اک ادا سنت مصطفی ﷺ
ایسے پیرِ طریقت پہ لاکھوں سلام
ویسے تو اتباع سنت رسول اللہ ﷺ ہی سلسلہ نقشبندیہ کی اصل ہے
لیکن سرکار جی اپنے جملہ اقوال و افعال، حرکات وسکنات، خوردونوش، سفر وحضر، غرضیکہ
تمام امور میں سنت کو اوّلیت دیتے بلکہ کوئی کام کرنا ہوتا تو پہلے یہ دیکھتے کہ اس
سلسلے میں اسوہ حسنہ کا طریقہ کار کیا ہے اور سنت و سیرت کی پوری پور ی تقلید فرماتے۔
اتباعِ سنت رسول اللہ ﷺ آپ کا عظیم مقصدِ حیات تھا اپنے ہر فعل
کے متعلق یہ دریافت کرنے کی کوشش فرماتے کہ یہ فعل حضور خاتم الانبیاء ﷺ نے کیسے کیا
ہے۔ اسوۂ حسنہ کی مطابقت میں ہر فعل کو ڈھالنے کی کوشش فرماتے حتی کہ اپنے سفر و حضر
اور خوردونوش میں ہر وقت سنت رسول اللہ ﷺ کی اتباع کی تاکید فرماتے۔اپنے علاوہ اپنے
ملنے والوں، مریدوں، اور معتقدین کوبھی سنت رسول ﷺ کی تقلید کی تاکید فرماتے اور سنت
کے خلا ف کوئی بات گوارا نہ فرماتے۔
آپ کا ہر عمل سنّتِ مصطفی ﷺ کے مطابق ہوا کرتا جب دوستوں میں
تشریف فرما ہوتے تو فرمانِ مصطفی ﷺ کی پابندی کی تلقین فرماتے کہ اس کے بغیر کوئی چارہ
نہیں۔ اپنی پوری حیاتِ مبارکہ کو ایسے شریعت کے سانچے میں ڈھالا کہ کوئی غیر دیکھتا
تو مانتا کہ اللہ کے مقبول بندے دنیا میں ہیں۔ اکثر فرمایا کرتے کہ مرشد کامل کے بغیر
اتباعِ سنت مصطفی ﷺ کامل نصیب نہیں ہوتی کیونکہ وہ اسوہ حسنہ کی زند ہ مثال ہیں۔
آپ نے اپنی تمام زندگی سنت مطہرہ کے مطابق گزاری۔ کسی نے بھی
آپ کو سنت مصطفی ﷺ سے ہٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔آپ کی زندگی ہم جیسے گنہگاروں کے لیے مشعلِ
راہ ہے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے پیرو مرشد جیسی سنتوں بھری زندگی گزارنے کی توفیق
عطا کرے۔آمین ثم آمین
آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کمانوالہ شریف سیالکوٹ صرف معرفت
و طریقت کا گہوارہ ہی نہیں بلکہ یہاں مکمل طور پر شریعتِ خداوندی، ارشاداتِ سرکار دو
عالم ﷺ اور تعلیماتِ اسلاف کو بطور خاص ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ یہاں غیر شرعی رسوم
اور باطل روایات سے مکمل اجتناب کیا جاتا ہے کیونکہ اس خانوادۂ طریقت کے پاسبان سمجھتے
ہیں کہ شہنشاہ دو عالم ﷺ کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر دینی اور دنیاوی طور پر فوزو
فلاح کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
شریعت مطہرہ کی سر بلندی اور تمام امور میں بالا دستی کا جو
تصور حضرت پیر سیّدجعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے پیش نظر تھا وہی مقصد اولیٰ آج ان
کے محترم جانشین کی دینی اور روحانی مساعی کا مرکز و محور بن چکا ہے۔
٭۔ زیارتِ حرمین شریفین:
سرکار جانِ جاناں حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ
علیہ کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں تین دفعہ عمرہ کی سعادتِ عظمیٰ نصیب ہوئی۔ بیت اللہ
شریف اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ ِ اقدس میں حاضر ی دی اور انوارو تجلیات
سے اپنے دل و جان کو خوب بھرا۔حج کی ادائیگی کے لیے تیاریاں مکمل تھیں مگر شدید بیماری
اور جسمانی کمزوری کی وجہ سے حج کی ادائیگی نہ ہوسکی اور اس دارِ فانی سے پردہ فرما
لیا۔
٭۔ادب ورعایتِ حقوق:
طبیعت میں تصنّع و تکلف نام کو نہ تھا۔ مسکنت، تمکنّت، وقار
آپ کی شخصیت سے ظاہر تھا بیعت میں جمالیت اس قدر کہ سالہا سال کسی پر غصہ نہ فرماتے
اور کبھی کسی کو آپ سے ضرر نہ پہنچتا چہرہ انور سے انوار و برکاتِ صدیقی عیاں تھیں۔اپنی
اور دوسروں کی حرمت کا خیال رکھتے ہمیشہ اپنے سے بڑوں کا ادب کرتے او ر چھوٹوں پر شفقت
فرماتے اپنے تمام حالات و افعال کو حضورِ اکرم ﷺ کی متابعت میں صَرف فرماتے۔
ادب آموز زاں ادیب کہ اُو
ادب از حضرت خدا آموخت
بر کسے خوان سبق کہ درہمہ حال
سبق از لوحِ کبریا آ موخت
آپ ہر ایک کا حق بالالتزام ادا کرنے کی کوشش فرماتے آپ کی محبت
و شفقت غرباء و مساکین کے لیے بھی تھی ان کی انتہائی تعظیم فرماتے سلام کرنے میں ہمیشہ
تقدم فرماتے۔
بعض عقیدت مندوں نے کہا کہ آپ انتہائی معمولی آدمی کو پہلے سلام
کہتے ہیں حالانکہ پہلے آپ کو سلام کرنا ان کا فرض ہے کیونکہ چھوٹوں کو بڑوں کی تعظیم
کرنی چاہیے تو حضور پیرو مرشد نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ ”مسلمانوں میں پہلے
سلام کرنے والے کو دس نیکیاں ملتی ہیں اور جواب دینے والے کو صرف ایک نیکی ملتی ہے
تو میں کیوں نہ سلام میں پہل کر کے دس نیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کروں۔
مزید فرمایا: حضورِ اکرم ﷺ نے چھوٹے بڑے کی تمیز مٹا دی تھی
یہ تمیز شیطانی ذہن کی پیداوار ہے اس لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک دوسرے
کو سلام کہتے وقت مقام و منصب کا کوئی خیال نہ رکھتے تھے بلکہ ہر کسی کی یہ کوشش ہوتی
تھی کہ دوسرے کو ملتے وقت سلام میں سبقت لے جائیں۔
٭۔مجلس:
جو کوئی آپ کی مجلس میں ایک بار بیٹھتا آپ کا گرویدہ ہوجاتا
اس کا اٹھنے کو دل نہ چاہتا۔ آپ ہر ایک کو اس کی باطنی حیثیت اور دلی اخلاص کے مطابق
دوست بناتے جس کو دوست بناتے اسے ایسا مطمئن فرماتے کہ پھر اسے کوئی حاجت نہ رہتی۔
باوجودیکہ آپ نہایت خوش اخلاق تھے پھر بھی پر وقار اور با رعب
نظر آتے اور مجلس میں کسی کو لب کشائی کی جرات
نہ ہوتی۔غلاموں کو لفظ مرید کہہ کر نہ پکارتے بلکہ لفط اللہ دا بندہ یا دوست کہہ کر
بلاتے۔
٭۔توکل:
سرکار پیرو مرشد جی سے ایک دن توکل کے بارے دریافت کیا تو آپ
نے فرمایا کہ ”دل اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف لگا رہے اس کے غیر سے الگ رہے“ نیز ارشاد
فرمایا کہ توکل یہ ہے کہ جن چیزوں پر قدرت حاصل ہے ان کے پوشیدہ راز کو معرفت کی آنکھ
سے جھانکنا مذہب معرفت میں دل کے یقین کی حقیقت کانام اعتقاد ہے کیوں کہ وہ لازمی امور
ہیں ان میں کوئی اعتراض کرنے والا نقص نہیں نکال سکتا۔
سرکار پیرومرشدجی اکثر فرمایا کرتے کہ اللہ رب العزت پر توکل
کرنے والا شخص کبھی مفلس نہیں رہ سکتا اپنے تمام دوستوں کو بھی توکل کی تلقین فرمایا
کرتے تھے۔
٭۔عاجزی و انکساری:
عاجزی و انکساری سرکار پیرو مرشد جی کا شعار تھی اور آپ کے مریدین،
عقیدت مندوں اور دیگر حاضرین کو بے حد متاثر کرتی تھی اس فیض و صحبت کا نتیجہ یہ تھا
کہ تمام مریدین، عقیدت مند مخلص عاجزی اور انکساری کا پیکر بن گئے تھے۔آپ نہایت متحمل
مزاج اور بُردبار تھے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم کے ساتھ ساتھ حلم اور انکساری کی دولت
بھی عطا فرمائی تھی۔ آپ بے حد ذہین تھے۔
جب بھی کوئی غریب و مسکین پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں آپ
کے پاس حاضر ہوتا تو آپ سرکار سب سے پہلے اس کے لیے دعا فرماتے اور اس کی دل دہی فرماتے
اور دعا کرتے کہ اے اللہ اس غریب مسکین کو صراطِ مستقیم پر استقامت فرما۔
٭۔عُفو و درگُزر:
عفو و درگزر آپ کا خاصہ تھی اگر کسی سے آپ کے حق میں زیادتی
ہوجاتی تو اسے اللہ تعالیٰ کے لیے معاف فرما دیتے ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ
ﷺ کبھی اپنی ذات کے لیے کسی سے بدلہ نہ لیتے۔ معمولی لغزشوں اور کوتاہیوں پر در گزر
فرماتے بلکہ عموماً اگر کسی کی غلطی یا کوتاہی سے آپ کو تکلیف پہنچتی تو خندہ پیشانی
سے برداشت فرماتے۔
٭۔حلم:
حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہر کسی سے نرمی
و ملائمت، حلم و بُردباری سے کلام فرماتے اور اکثر اپنے ذاتی نقصان ہونے پر بھی کبھی
کسی پر غصہ نہ فرماتے اور اگر آپ کسی کے منہ سے اپنے متعلق کوئی خلافِ ادب یا برا کلمہ
اپنی ذات کے متعلق سن بھی لیتے تو اس سے اعراض فرماتے اور جواب دینے سے گریز فرماتے۔
٭۔حُسنِ خُلق اور مروّت:
حضور نبی کریم ﷺ کے متعلق یہ فرمانِ الہی ”انک لعلی خلق عظیم“
ہمیشہ پیرومرشد سرکار جی کے مدنظر رہتا اور نبی کریم ﷺ کے فرمان ”لوگوں سے ہمیشہ خلق
سے پیش آؤ“ کے نمونہ کے مصداق ہر چھوٹے، بڑے،
بزرگ و خورد، عالم وجاہل کے ساتھ اخلاقِ حسنہ سے پیش آتے۔اپنے اسی اخلاقِ حسنہ سے آپ
نے لوگوں کے دل جیت لیے اور ہزاروں بندگانِ خدا کو راہِ راست پر گامزن فرمایا۔
آپ سب سے مروّت سے پیش آتے مروّت میں آپ اکثر اوقات تکالیف بھی
برداشت کرنا پڑتیں اور نقصان بھی اٹھانا پڑتا اس کے باوجود مروّت کو ہاتھ سے نہ چھوڑتے۔
٭۔محبتِ مساکین:
حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ مسکینوں سے
ہمیشہ محبت و شفقت سے پیش آتے امیروں، تونگروں کی ہم نشینی سے عموماً دور رہتے اور
یہ حقارت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان پر عمل تھا کہ ”اے اللہ! مجھے
مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ اور مسکینی پرموت دے اور قیامت میں مساکین کے زمرے میں
حشر فرما“۔
٭۔مہمان نوازی:
حضرت پیر سید جعفر علی شاہ سرکار رحمۃ اللہ علیہ کی مہمان نوازی
ضرب المثل تھی آپ کا لنگر عام تھا مرید، واقف ناواقف، زائر یا محض اجنبی آپ کی نظر
میں یکساں تھے اور لنگر سے ہر ایک کو ایک ہی قسم کا کھانا ملتا تھا۔ امیر، غریب، بچے،
بوڑھے سب برابر تھے دن ہو یا رات،صبح ہو یا شام، سردی گرمی، بارش آندھی ہر حال میں
مہمان کی تواضع اس انداز میں فرماتے کہ اجنبی کے دل میں بھی آپ کی محبت، تواضع اورا
یثار کا نقش جم جاتا اور اس کے ذہن میں آپ کی مہمان نوازی کی یادگار ہمیشہ کے لیے قائم
ہوجاتی۔
لنگر اور مہمان نوازی صرف عرس پاک کے دنوں میں ہی نہیں بلکہ
عام دنوں میں بھی جاری و ساری رہتی ہے۔ سرکار پیرومرشد حضرت پیر سید جعفر علی شاہ قدس
اللہ سرہ کا یہ خاصہ تھا کہ تمام مہمانوں کو پہلے کھانا کھلاتے اور بعد میں حسبِ ضرورت
خود کھانا تناول فرماتے خوراک بے حد کم کھاتے آپ سرکار جی کے دربار سے کبھی کوئی خالی
نہ گیا۔
٭۔معمولات:
آپ کا یہ معمول تھا کہ آخر تہائی شب نیند سے بیدار ہو تے اور
نمازِ تہجد کی بارہ رکعت نفل ادا کرتے اور تسبیح و تہلیل کے بعد مراقبہ و زکر نفی
اثبات فرماتے بعد از صبح صادق سنت فجر دو رکعت ادا کر کے تھوڑی دیر دائیں کروٹ لیٹ
کر قیلولہ فرماتے پھر نمازِ فجر باجماعت ادا کرکے مراقبہ اور نفی اثبات میں مشغول ہوجاتے۔
نمازِ اشراق کے بعد ادا کرنے کے بعد مریدین و یارانِ طریقت کی
طرف توجہ فرماتے جو طالبانِ حق بیعت کے ارادے سے حاضر ہوتے ان کو بیعت فرما کر ان پرتوجہ
فرماتے۔بعد ازاں کھانا تقسیم ہوتا سرکار جی خود بھی دوستوں کے ساتھ کھانا کھاتے پھر
کچھ دیر آرام فرماتے زوال کے بعد وضو فرماتے نفی اثبات کی تسبیح فرماتے پھر نماز ظہر
با جماعت ادا کرتے۔نمازِ ظہر کے بعد آپ مریدین اور عقیدتمندوں پر توجہ فرماتے جو عقیدت
مند رخصت ہونا چاہتا اسے رخصت فرماتے نماز عصر کے وقت ہمیشہ پہلے چار رکعت سنت ضرور
ادا فرماتے پھر نماز عصر باجماعت ادا کرتے نمازِ عصر کے بعد دوستوں کے ساتھ جامع مسجد
عابد میں ختمِ خواجگان پڑھا کرتے۔ مغرب کی نماز باجماعت ادا کرکے چھ نفل اوابین ادا
فرماتے بعد میں دوستوں کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرماتے۔
نمازِ عشاء کی پہلی چار رکعت سنت ضرور ادا فرماتے نماز عشاء
کی ادائیگی کے بعد قرآنِ پاک کی تلاوت فرماکر استراحت فرماتے۔ہر اتوار کے دن صبح ختمِ
خواجگان سب دوستوں کے ساتھ پڑھتے اور درسِ قرآن بھی دیا کرتے تھے۔
٭۔سالانہ عرس مبارک:
قطب الاقطاب حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃاللہ علیہ
کا سالانہ عرس مبارک اور ان کے والد ماجد قبلہ عالم حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کا سالانہ عرس مبارک اور ان کے والد ماجد پیر طریقت، رہبر شریعت پیر سیّد
عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے والدحضور پیر طریقت، اسرار رموز حقیقت حضرت
پیر سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا اجتماعی سالانہ عرس مبارک 24-23جون آستانہ
عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کمانوالہ شریف سیالکوٹ میں منعقد ہوتا ہے۔ عرس مبارک کی تقریبات
میں ملک کے طول و عرض سے ہزاروں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں وطن عزیز کے ممتاز علماء کرام
اور نعت خواں حضرات کثرت سے شرکت کرتے ہیں۔
مشائخِ کمانوالہ شریف کا مزارپُر انوار بلاشبہ مرجع خلائق ہے۔
یہ مزار حسن تعمیر کے لحاظ سے سادگی و پرکاری کا حسین نمونہ ہے اس مزار انوار کی ایک
جھلک دیکھتے ہی بے قراروں کو سکون و قرار کی دولت نصیب ہونے لگتی ہے۔ یہ مزار نشان
منزل اور صاحب مزار منزل طریقت کا درجہ رکھتے ہیں۔
مزار شریف کی ایک جھلک دیکھتے ہی مشائخِ کمانوالہ شریف کی پاکیزہ
زندگی کا ایک ایک لمحہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ جن کا ہر عمل سنت رسول ﷺ کی
عملی تصویر اور جن کا ہر فعل حکم خداوندی کی تفسیر تھا۔ ان مردانِ حق آگاہوں کی پاکیزہ
سیرت کا ایک ایک لمحہ ہمیں اس حقیقت کا ادراک بخش رہاہے۔
یہی لوگ ہیں جن سے دنیا ہے قائم
انہی سے ہی ایمان کی روشنی ہے
٭۔ کشف و کرامات
(مقبولِ بارگاہ ِ رسالت مآب ﷺ)
بزبانی محمد عرفان بٹ کور پور سیالکوٹ سے بتاتے ہیں کہ ایک دن
میں پیرو مرشد کی زیارت کے لیے آستانہ عالیہ حاضر ہوا پیرو مرشد سرکار نے حکم فرمایا
کہ عطار اسلامی کتب خانہ نزد جامع دارالعلوم دو دروازہ سیالکوٹ سے تفسیرِ مظہری کا
ایک سیٹ لے آؤ بمطابق حکم میں عطار اسلامی کتب خانہ پر گیا تو میں نے عرض کی مجھے پیر
سید جعفر علی شاہ صاحب نے بھیجا ہے تو وہاں بیٹھے ایک باریش بزرگ نے اٹھ کر میری آنکھوں
کو چوم لیا جب میں نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ پیر سید
جعفر علی شا ہ صاحب کی زیارت کر کے آئے ہیں اس لیے آنکھوں کا بوسا لیا ہے۔
اور کہنے لگے کہ
میں آپ کے پیر صاحب کے ساتھ زمانہ طالب علمی کے دوران درسِ نظامی میں پڑھتا تھا ایک
دن حافظ محمد عالم محدث سیالکوٹی کلاس روم میں آئے تو کچھ طالب علم شرارتوں میں مصروف
تھے جبکہ پیر سید جعفر علی شاہ صاحب ایک طرف خاموش طبع اور سنجیدگی سے بیٹھے ہوئے تھے
استاد محترم کو دیکھ کر تمام طلباء اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے اور ان لوگوں کی شرارتوں
کی سزا پیر سید جعفر علی شاہ کو تین چھڑیاں کھا کر برداشت کرنا پڑی بعد ازاں پیر صاحب
گھر چلے گئے۔
جب اگلے دن ہم لوگ درس میں حاضر ہوئے تو استادِ محترم جناب حافظ
محمد عالم صاحب نے مجھے حکم فرمایا کہ شاہ صاحب جب بھی درس میں آئیں تو مجھے فوری طور
پر آگاہ کرنا جب شاہ صاحب درس میں آئے تو میں نے استاد محترم کو عرض کی کہ شاہ صاحب
آگئے ہیں تو استادِ محترم اسی لمحے شاہ صاحب کے پاس گئے اور جاتے ہی معافی کے طلبگار
ہوئے کہ کل میں نے آپ کوناحق چھڑیاں ماریں ہیں اس کی معافی چاہتا ہوں شاہ صاحب کہنے
لگے کہ جناب آپ میرے استادِ محترم ہیں اگر آپ نے سزا دی ہے تو کوئی بات نہیں حافظ محمد
عالم صاحب نے پیر سید جعفر علی شاہ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور کہا کہ شاہ صاحب آپ درس
کی کلاس میں جائیں اور اپنا سبق یاد کریں لیکن مجھے ایک عجیب سی بے چینی لگ گئی کہ
اتنے بڑے عالمِ دین اور معافی مانگ رہے ہیں یہ سب ماجرا کیا ہے میں نے استادِ محترم
سے عرض کیا کہ جناب یہ سب کیا ہے تو آخرکار استاد جی نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میری زندگی
میں یہ بات کسی سے نہ کرنا تب حافظ صاحب نے بتایا کہ میں روزانہ تہجد کے وقت نبی کریم
ﷺ پر درودوسلام بھیجتا ہوں آج مجھے رسو ل اللہ ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو کیا دیکھتا
ہوں کہ پیر سید جعفر علی شاہ صاحب آقا کریم ﷺ کی گود میں بیٹھے ہیں اور کریم آقا ﷺ
نے مجھ سے ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمانے لگے کہ حافظ صاحب مجھ پر اور میری آل پر
درود سلام پڑھتے ہیں اور میری آل کو ناحق مارتے ہیں بس اسی وجہ سے میں نے معافی مانگی
استادِ محترم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر میں حیران و ششدر رہ گیا اور عش عش کر
اٹھا کہ کتنی عظیم شخصیت کے ساتھ علم دین حاصل کر رہاہوں۔
(کھانے میں برکت)
ایک دفعہ جمعہ کے دن آستانہ عالیہ پر کافی تعداد میں دوسرے شہروں
سے مریدین جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہوئے جمعہ کی نماز کے بعد سرکار جی نے مہمانوں
کے لیے دوپہر کے کھانے کا بندوبست کیا کھانا صرف 15سے20افراد کا تھا جب سرکار جی کو
اس کے متعلق عرض کیا گیا تو سرکار جی نے فرمایا کہ کھانے کے اوپر کپڑا رکھ دو اور کپڑے
کے نیچے سے کھانا لے کر تمام احباب میں تقسیم کردیں وہ کھانا کم و بیش 100افراد میں
تقسیم کیا گیا اور سب لوگوں نے سیر ہو کر کھانا کھایا جب بعد میں دیکھا گیا تو کھانے
میں کوئی کمی نہ ہوئی۔خاکسار اس وقت سرکار جی کی خدمت میں حاضر تھا اور اس کرامت کو
اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
(روحانی و اخلاقی تربیت)
(۱)
سیالکوٹ سے ہمارے ایک پیر بھائی نے بتایا کہ ایک دن پیرو مرشد
سرکار کی زیارت کے لیے کمانوالہ شریف حاضر ہوا سرکار جی کی زیارت نہ ہوئی تو میں دربار
شریف چلا گیا وہیں پر کھڑا تھا کہ میرے موبائل پر میرے ہمسائے کی کال آئی جس نے کہا
کہ اس وقت کہاں ہو اس پیر بھائی نے کہا کہ میں اس وقت ڈالووالی سائیڈ پر ہوں جبکہ کہنا
یہ چاہیے تھا کہ کمانوالہ شریف دربارِ اعظم پر حاضر ہوں۔ جب میں رات کو سویا تو مجھے
سرکار جی کی خواب میں زیارت ہوئی خواب میں دست بوسی کرنے کے بعد سرکار جی نے میرا ہاتھ
پکڑ لیا اور حکم دیا کہ اللہ کے بندے جھوٹ بولنا گناہ ہے اور اس سے اللہ رب العزت ناراض
ہوتے ہیں۔مرشد کامل اسی طرح اپنے مریدین کی اخلاقی اور روحانی تربیت فرماتے ہیں۔
نگاہِ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے
(۲)
بزبانی محمد ارسلان گھمن سمبڑیال سے بتاتے ہیں کہ ایک دن میں
رات کوکافی دیر سے گھر گیا تو میرے والدین
نے پوچھا کہ رات کو اتنی دیر سے کیوں آئے ہو جس پر میں نے اپنی والد ہ سے تھوڑے سخت
لہجے میں بات کی میرے اس رویے کی وجہ سے میری والدہ کافی پریشان ہوئیں میں تھوڑی دیر
کے بعد سوگیا اور خواب میں مجھے سرکار پیرو مرشد کی زیارت ہوئی سرکار مجھ سے کافی زیادہ
خفاتھے اور فرما رہے تھے کہ ارسلان اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش
آؤ اور ان کے ساتھ پیار، محبت اور نرمی کے ساتھ بات کیا کرو کیونکہ ماں باپ کا نا فرمان
کبھی خوش نہیں رہ سکتامیں اسی وقت نیند سے بیدار ہو کر والدین کے پاس حاضر ہوا اور
معافی مانگی اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔یہ سب میرے مرشد پاک کی نظر کرم
کا فیضان ہے جو ہماری ہر طرح سے راہنمائی کرتے ہیں۔
حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے دست اقدس
سے بے شمار خوارقات و تصرفات کا ظہور ہوا لیکن بوجہ طوالت اسی پر اکتفا کیا جاتاہے۔
٭۔وصال پر ملال:
حضرت علامہ پیرسید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اپنی عمر شریف
کے آخری ایام میں اکثر بیمار رہنے لگے اور آپ راضی برضا تھے قبلہ عالم حضرت علامہ پیر
سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال با کمال شریف بروز جمعۃ المبارک ۹۲ربیع
الاوّل ۰۴۴۱ ہجری،بمطابق7دسمبر
2018ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نماز جنازہ مورخہ08دسمبر 2018 بروز ہفتہ دوپہر12:30بجے
کمانوالہ شریف سیالکوٹ میں ادا کیا گیا۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی عمر شریف کے آخری سال
حا لتِ استغراق میں رہے۔
جہانِ آرزو میں دلبر تجھ سا نہیں پایا
جہاں تیرا قدم دیکھا وہیں نقشِ جبیں پایا
٭۔ارشاداتِ قدسیہ:
1.
جسے اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا ہے اسے پھر کسی اور چیز کی خواہش
نہیں ہوتی اور جسے وہ دنیا دیتاہے اس کی خواہش بھوک بن جاتی ہے او ر بھوک کبھی ختم
نہیں ہوتی۔
2.
دنیا کی کوئی چیز اتنی شفاف نہیں جتنا شفاف وہ دل ہے جس پر اللہ
اور اسکے حبیب ﷺ کی محبت قابض ہے۔
3.
بڑا انسان وہ ہے جس کی محفل میں کوئی خود کو چھوٹا نہ سمجھے۔
4.
جسم کو مت سنوارو کیونکہ اسے مٹی میں مل جانا ہے بلکہ اپنی روح
کو سنوارو جسے خدا کے
5.
پاس جانا ہے۔
6.
آنسو اور مسکراہٹ دو انمول خزانے ہیں آنسو صرف اللہ تعالیٰ کے
سامنے بہاؤ اور مسکراہٹیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بانٹ دو یہی بندگی کا تقاضہ اور
انسانیت کی معراج ہے۔
7.
انسان دعا میں سمجھتا ہے کہ اللہ بہت قریب ہے اور گناہ کے وقت
سمجھتاہے کہ اللہ بہت دور ہے اس مقام پر آکر انسان جھوٹا ہو جاتا ہے۔
8.
انسان کو اللہ کریم کا قرب عقل سے نہیں عشق سے ملتا ہے۔
9.
اخلاق سورج کی وہ روشنی ہے جس سے بد ی کا اندھیرا غائب ہوجاتا
ہے۔
10.
مسکراہٹ مسرت بخشتی ہے اور ہر ایک کو دوست بنانے میں مدد دیتی
ہے۔
11.
جو شخص مطمئن رہتاہے وہ سب سے زیادہ دولتمند ہے کیونکہ اطمینان
فطرت کی سب سے بڑی دولت ہے۔
12.
محبت اور عبادت بتائی نہیں جاتی بس کی جاتی ہے۔
13.
اللہ کا ولی زمین پر ہوتو روزانہ میلہ اگر زمین میں ہو تو سالانہ
میلہ۔
14.
خواہشات وہ بھنور ہیں جن میں پھنس کر انسان اپنا مقصدِ حیات
بھول جاتا ہے۔
15.
دس دعوے کرنے کی بجائے ایک عملی قدم لینا بہترہے۔
16.
اخلاق سورج کی وہ روشنی ہے جس سے بدی کا اندھیرا غائب ہوجاتاہے۔
٭۔صاحبزادگان:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے تین صاحبزادے ہیں جن کے نام یہ ہیں۔
1.
حضرت صاحبزادہ پیر سید عون رضا شاہ مد ظلہ العالی۔
سجادہ نشین آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کمانوالہ شریف سیالکوٹ
2.
صاحبزادہ سید عتیق رضا شاہ صاحبزادہ
سید علی اکبر شاہ