زبدۃ العارفین، سید السالکین، پیر طریقت عارف شریعت راز دار
اسرار حقیقت منبع رشدو ہدایت قبلہ عالم حضرت پیر سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
٭۔تعارف:
زبدۃ العارفین، سید السالکین، پیر طریقت عارف شریعت راز دار
اسرار حقیقت منبع رشدو ہدایت قبلہ عالم حضرت پیر سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کے مشہور صوفی اور صاحب حال بزرگ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ
شہر سیالکوٹ کے قریب واقع کمانوالہ میں رہائش پذیر تھے اور سادات کے عالی شان گھرانے
سے تعلق تھا۔
مشرب کے لحاظ سے آپ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ
علیہ کے طریق حنفیہ پر تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ پر تھے اور
تصوف میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اور بیعت شیخ کامل عالم عارف شریعت طریقت حضرت
خواجہ حافظ عبدالکریم رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ اور حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت
حضرت خواجہ نور محمد رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب
جناب سرکار دوعالم فخر موجودات حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ
دونوں نسبتوں سے رسول خدا ﷺ سے جا ملتے ہیں۔
٭۔ بیعت:
شروع شروع میں آپ رحمۃ اللہ علیہ محکمہ فوجی ہسپتال میں ملازم
تھے دل میں طلب حق کا ولولہ پہلے سے موجود تھا مولوی نیاز اللہ صاحب سے قبلہ عالم حافظ
صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اوصاف حمیدہ اور کمالات سنے اور بڑے ذوق شوق سے حاضر خدمت ہوئے
اور حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اظہار خیال کیا جسے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے منظور
فر ما کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بیعت کر لیا اور نصیحت فرمائی کہ اگر طلب حقیقی رکھتے
ہو تو مطلوب ضرور ملے گا۔
مگر ثابت قدم رہنا
گرمی سردی سہنی پڑے گی۔ چونکہ طالب صادق تھے جلد شرف قبولیت سے مشرف ہوگئے۔ آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے پوری عمر اپنے شیخ کی خدمت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا اور اپنے دل میں
شیخ کی محبت کا پودا لگا کر اسے پروان چڑھایا۔ ایک دفعہ جب آپ رحمۃ اللہ علیہ شیخ رحمۃ
اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھے۔ تو شیخ کامل نے خوش ہو کر فرمایا کہ راجن علی شاہ
مانگو کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا حضور ﷺکے در کی
غلامی پھر قبلہ حافظ جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا مانگو کیا چاہتے ہو عرض کیا
حضو ر ﷺ کے در کی غلامی، پھر تیسری مرتبہ فرمایا
مانگو کیا چاہتے ہو عرض کیا حضور ﷺ کے در کی
غلامی۔ قبلہ عالم حافظ جی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے خوش ہو کر آپ رحمۃ اللہ علیہ کو سینے
سے لگا لیا اور فرمایا کہ تم نے دونوں جہان کی دولت لوٹ لی۔ اور ساتھ ہی خلافت و اجازت
سے نوازا۔ اور کہا کہ جاؤ اب اللہ اللہ کرو اور لوگوں سے بھی اللہ اللہ کراؤ۔
٭۔ شریعت کی پابندی:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی شریعت مصطفی ﷺ کی متبع تھی۔ قدم
قدم پر شریعت مصطفی ﷺ کا لحاظ رکھتے اور اپنے مریدین کو بھی اس کی تلقین کرتے۔ جہاں
کہیں شریعت کی خلاف ورزی دیکھتے تو وہاں اس کا انسداد کرتے میرے ایک دوست ملک فقیر
سائیں ساکن شادیوال نے حضرت صاحب کی زندگی کا ایک واقعہ مجھ سے بیان کیا وہ بیان کرتے
ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سید راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے گاؤں تشریف لائے رمضان
شریف کا مہینہ تھا کسی شخص نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ حضور فلاں
آدمی کے گھر میں ایک پیر صاحب تشریف لائے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے اور دن کے اوقات میں
حقّہ پیتے رہتے ہیں اور بھنگ کا بھی دور چلاتے ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ یہ بات سن کر فوراً جلال میں آگئے اور مولوی
محمد یوسف صاحب سے کہنے لگے کہ چلو چل کر دیکھیں کہ واقعی یہی بات ہو رہی ہے جب آپ
رحمۃ اللہ علیہ وہاں آئے تو دیکھا کہ پیر صاحب تو چارپائی پر بیٹھے حقہ کے کش لگا رہے
ہیں اور ان کے مرید پاس بیٹھے پیر صاحب کو دبا رہے ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ
نے یہ منظر دیکھا تو فوراً جلا ل میں آکر اپنا عصا مبارک اٹھا یا ابھی اس پیر کے سر
پر مارنے ہی والے تھے کہ دوستوں نے پکڑ لیا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تم اپنیآپ
کو سیّد اور درویش ظاہر کرتے ہو اور آپ کا یہ حال ہے کہ اپنے جد اعلیٰ کے احکام کو
پامال کر رہے ہو۔ جاؤ آپ کی یہی سزا ہے کہ فوراً اس گاؤں سے نکل جاؤ اور پھر کبھی اس
گاؤں میں آنے کی کوشش نہ کرنا۔ ورنہ آپ کا حشر برا ہوگا۔ اور پھر آپ رحمۃ اللہ علیہ
نے گاؤں والوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ سنو۔
”جو آدمی شریعت
مصطفی ﷺ کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ ہرگز سیّد اور درویش نہیں ہوسکتا بلکہ سیّد تو وہ
ہے جس کی زندگی حضور نبی کریم ﷺ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق ہو اور جو قدم قدم پر
شریعت مصطفی ﷺ کی پیروی کرے۔
٭۔ کشف و کرامات:
حضرت سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کشف و کرامات
سے بھری پڑی ہے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے کے بلند پایہ بزرگ تھے مسلمان تو در کنار
غیر مسلم بھی آپ کی بزرگی کے قائل تھے۔ مولوی محمد الدین چنگا سمبڑیال کا بیان ہے کہ
تقسیم ہند پاک سے پہلے ٹیلہ نامی گاؤں جو کہ ضلع سرگودھا میں واقع ہے وہاں میں ہر نامہ
سنگھ کے ہاں بمشاہدہ ۰۲روپے ماہوار اس کے باغ کا مالی تھا۔ ہر نامہ سنگھ اس علاقے کا
چوہدری تھا اور بڑے بڑے لوگ اس کے رعب و ادب سے خائف تھے۔ہرنامہ سنگھ نے اپنے چچا امیہ
سنگھ کو کسی دیرینہ دشمنی کی بنا پر قتل کر دیا۔ مقتول کے وارثوں نے ہر نامہ سنگھ کے
خلاف عدالت میں قتل کا کیس رجسٹر کر وا دیا۔ ایک دن جب میں باغ کی رکھوالی کر رہا تھا۔
ہر نامہ سنگھ آیا اور مجھے ساتھ لے کر باغ سے باہر ایک چوک میں لے گیا وہاں ایک ٹانگہ
کھڑا تھا۔
مجھے ٹانگہ میں
بٹھا کر سیدھا بھلوال آگیا میں ڈر رہا تھا کہ پتہ نہیں کون سی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔
جس کی وجہ سے وہ بغیر وجہ بتائے وہ مجھے یہاں لے آیا۔بھلوال پہنچ کر اس نے ایک ہوٹل
والے کو کہا کہ مجھے کھانا کھلائے ہوٹل والے نے مجھے روٹی دی میں خوب سیر ہو کر روٹی
کھائی۔ کھانا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد میں عرض کیا کہ سردار جی آخر کیا معاملہ ہے
آپ مجھے یہاں لے آئے کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ امیہ سنگھ کو واقعی میں نے قتل کیا
ہے۔
اور آپ کو میں اس
لیے ساتھ لایا ہوں کہ آپ مجھ سے کرایہ لے کر سیدھے کمانوالہ شریف اپنے پیرو مرشد کے
پا س جاؤ اور جا کر میرے لیے دعا کرواؤ۔ کہ میں اس مقدمے سے بری ہو جاؤں یہ کہتے کہتے
ہر نامہ سنگھ رو پڑا اور ہنے لگا محمد الدین میں جانتا ہوں کہ سید راجن علی شاہ صاحب
تمہاری بات نہیں ٹالتے وہ آپ کی سنتے اور مانتے ہیں اور میرا ایمان ہے کہ راجن علی
شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدا مانتا ہے اور میرا پختہ ایمان ہے کہ سید راجن علی شاہ
رحمۃ اللہ علیہ جو زبان سے کہہ دیں وہ خدا پوری کردیتا ہے۔ اس لیے آپ اپنے پیر کے ہاں
حاضر ہو کر میرے لیے دعا کراؤ۔ اور مجھے واپسی بذریعہ تحریر کل جواب لادو۔ مولوی محمد
الدین چنگا بیان کرتا ہے کہ میں سیدھا دربار شریف حاضر ہوا۔ حضرت سیّد راجن علی شاہ
رحمۃ اللہ علیہ کو سلام عرض کرنے کے بعد واقعہ بیان کیا حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے
لگے کہ اچھا نفل تہجد کے بعد دعا کریں گے۔ جب نفل تہجد کے لیے حضرت صاحب رحمۃ اللہ
علیہ اٹھے اور میں بھی ساتھ تھا میں نے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا وضو کروایا۔ اور
نفل پڑھنے کے لیے مسجد میں آئے نفل شروع کرنے سے پیشتر حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے
لگے محمد الدین دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہرنامہ سنگھ کو بر ی کر دے۔
میں نے عرض کیا آقا دعا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کرنی ہے حضور
قبلہ عالم نے فرمایا اچھا محمد الدین دعا کرتے ہیں۔ نفل تہجد سے فارغ ہو نے کے بعد
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کچھ دیر آرام فرمانے لگے پھر صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حضرت
صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے محمد الدین دعا کی ہے جو اللہ رب العزت نے منظور فرما
لی ہے انشاء اللہ بری ہو جائے گا لیکن یاد رکھو اس قسم کی سفارشیں لے کر نہ آیا کرو
کبھی کبھی اس قسم کی دعائیں نامنظور بھی ہو جاتی ہیں۔میں نے عرض کیا حضور میں واپس
چلا جاتا ہو ں اور کہہ دوں گا کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نہیں ملے آپ رحمۃ اللہ علیہ
نے فرمایا اب واپس جا کر کہنے کا کیا فائدہ جب کہ دعا تومنظور بھی ہو چکی ہے۔
میں نے عرض کیا حضور پھر تحریر کردیں۔ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ
نے کاغذ لے کر اس پر لکھ دیا کہ ہر نامہ سنگھ کے لیے دعا کی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے
منظور فرمالی ہے یہ رقعہ لے کر میں واپس ہر نامہ سنگھ کے پاس آیا اور آکر وہ رقعہ اسے
دے دیا۔ ہر نامہ سنگھ خوش ہو گیا اگلے دن جب وہ اپنی تاریخ پہ عدالت میں حاضر ہوا تو
جج نے فیصلہ سناتے ہوئے ہر نامہ سنگھ کو بر ی کر دیا۔
٭۔مولوی محمد دین چنگا کو نبی کریم ﷺ کی خواب میں زیارت:
مولوی محمد الدین چنگا ساکن سمبڑیال تحصیل سمبڑیال ضلع سیالکوٹ
جن کا شمار آپ رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء خاص
میں ہوتا ہے بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ دورہ پر سمبڑیال تشریف
لائے صبح کی نماز آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سید نادر شاہ کی مسجد ادا کی۔ اشراق پڑھنے سے
فارغ ہونے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے۔میں آپ کا ناشتہ لے کر
حاضر ہوا ناشتہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے آگے رکھا آپ رحمۃ اللہ علیہ ناشتہ کرنے
لگے تو میں نے عرض کیا حضور جو لوگ حضور نبی کریم ﷺ کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں وہ کتنے
خوش نصیب ہوتے ہیں یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھا یا اور فرمانے
لگے۔محمد الدین آپ نے بھی حضور ﷺکی زیارت کرنی ہے عرض کیا آقا میرے اتنے بلند نصیب
کہاں۔ فرمانے لگے یہ نہ کہو انشاء اللہ آپ کو بھی حضور ﷺ کی زیارت ہو جائے گی۔
محمد الدین بیان کرتا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد رات کو خواب میں
کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ جلدی جلدی سے میرے مکان کے آگے سے گزر رہے ہیں میں نے جلدی جلدی
گزرنے کی ان لوگوں سے وجہ پوچھی وہ کہنے لگے محمد الدین نادر شاہ کی مسجد میں نبی کریم
ﷺ تشریف لائے ہوئے ہیں ہم سب ان کی زیارت کے لیے جارہے ہیں میں یہ سن کر بہت خوش ہوا
اور دوڑتا ہوا نادر شاہ کی مسجد پہنچا وہاں دیکھا تو مخلوق کا کافی ہجوم تھا جب میں
مسجد کے اندر گیا تو حضور نبی کریم ﷺ مسجد کے اندر جلوہ افروز تھے آپ ﷺ کے دائیں طرف
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بائیں طرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تشریف فرما
تھے میں نے جھک کر ادب سے حضور نبی کریم ﷺ کو سلام کیا پھر حضور نبی کریم ﷺ اور حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے درمیان دو چیزیں پڑی ہوئی تھیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ نے ہلکی چیز اٹھا کر مجھے دینی چاہی تو حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اچھی چیز
دو اور پھر مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا میں حضور ﷺ کے قریب پہنچا تو آپ ﷺ نے مجھے لٹا
کر میرے منہ میں اپنا لعاب دہن مبارک ڈالا۔
اتنا واقعہ دیکھنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی میں قربان جاؤں
سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ پر جو مجھے حضور ﷺ کی بارگاہ بے کس پناہ تک لے گئے۔
٭۔ بزبانی پیر سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ:
پیر سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
خلیفہ تھے جب آپ دورہ پر تشریف لے جاتے تو سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ آپ رحمۃ
اللہ علیہ کے ساتھ ہوتے۔ ایک دفعہ سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کی کرامات کا
ذکر کر رہے تھے تو فرمانے لگے ایک دفعہ میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا اور
دورہ تحصیل بھلوال کے ایک گاؤں مٹیلہ میں گئے جب ہم متذکرہ گاؤں پہنچے تو حضرت صاحب
رحمۃ اللہ علیہ نے گاؤں کی مسجد میں قیام کیا ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد جب تمام دوست
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھ گئے تو دوستوں میں ایک شخص شاہ محمد حجام نے آپ رحمۃ
اللہ علیہ سے آپ کے مرید کی شکایت کی کہ جناب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فلاں مرید اچھے
کا م نہیں کرتے۔ یہ سن کر حضرت صاحب نے فرمایا کہ تمہیں کیا وہ خاموش ہو گیا۔
پھر عصر کی نماز
کے بعد اس نے حضرت صاحب کے سامنے وہی پہلا تذکرہ شروع کر دیا۔ آپ نے فرمایا خاموش رہو
کسی کی پیٹھ پیچھے بد خوئی نہیں کرنی چاہیے وہ پھر خاموش ہو گیا۔ اور پھر مغرب کی نماز
کے بعد اس نے وہی بات شروع کر دی آپ نے پھر وہی فرمایا کہ تجھے کیا۔ حتی کہ جب حضرت
صاحب عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو اس نے پھر وہی بیان دہرایا یہ سن کر حضرت صاحب جلال
میں آکر فرمانے لگے کہ تو نے اس شخص کو یہ کام کرتے دیکھا ہے۔ کہنے لگا جی ہاں فرمایا
آئندہ تو نہیں دیکھے گا۔
یہ کہہ کر حضرت صاحب نے مجھے حکم دیا سامان وغیرہ باندھ لو اور
یہاں سے کوچ کرو اور صبح کی نماز ملکوال اسٹیشن پر پڑھنی ہے اب یہاں نہیں ٹھہرنا دوستوں
نے بہت منت سماجت کی لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے نہ مانی۔ چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں کہ میں نے تیاری مکمل کر لی اور آدھی رات کے وقت میں حضرت صاحب کے ہمراہ
ملکوال ریلوے اسٹیشن پر پہنچا فجر کی نماز پڑھنے کے بعد میں حضرت صاحب کے ساتھ ریل
میں سوار ہو کر سیالکوٹ پہنچا پھر وہاں سے حضرت صاحب سے ساتھ دربار شریف آیا۔
حضرت صاحب کو دربار شریف چھوڑنے کے بعد اجازت لے کر سیدھا اپنے
گاؤں خلیل پور گجرات آگیا۔ گھر آ کر دیکھتا ہوں کہ وہ آدمی جس نے حضرت صاحب سے شکایت
کی تھی ہمارے گھر میں موجود تھا میں نے اس سے پوچھا کیوں بھئی کیا بات ہے۔ تم ہمارے
پہنچنے سے پہلے یہاں کیسے پہنچ گئے کیا کوئی تکلیف تو نہیں۔
وہ یہ بات سن کر رو پڑا اور کہنے لگا شاہ جی آنکھوں سے نابینا
ہو گیا ہوں نظر کچھ نہیں آتا۔ میں نے کہا کہ تمہیں روکا نہیں گیا تھا کہ شکایت نہ کرو
لیکن تم باز نہیں آئے اور ایک ہی رٹ لگاتے رہے۔ تو پھر حضرت صاحب نے تجھے یہ پوچھا
کہ دیکھا ہے تو تم نے کہا ہاں حضور دیکھا ہے تو حضرت صاحب نے فرمایا تھا کہ اب نہیں
دیکھے گا تو اب مزے کرو۔ آپ نے نہ تو حضرت صاحب کے کہنے پر عمل کیا۔ اور نہ میری بات
مانی اس لیے میں اب کیا کر سکتا ہوں یہ سن کر وہ آدمی اور زور سے رونے لگا اور کہنے
لگا کہ حضر ت صاحب کے پاس لے چلو اور مجھے معافی لے دو۔
میں نے کہا بھئی
اس معاملے میں حضرت صاحب کے سامنے جاتے ہوئے ڈرتا ہوں اس نے میری ایک نہ مانی اور اسی
بات پر ڈٹا رہا اور یہی کہتا رہا کہ حضرت صاحب کے پاس لے چلو آخر کار میں اس کو ساتھ
لے جانے پر مجبور ہو گیا اور میں اس کو لے کر سیدھا دربار شریف کمانوالہ شریف پہنچا
گھر سے پتہ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں ہم دونوں مسجد
میں گئے تو دیکھا کہ حضرت صاحب مسجد میں تشریف فرما ہیں۔
ہم دونوں مسجد میں گئے ہمیں آتا دیکھ کر آپ مسکرائے اور پوچھنے
لگے کہ کہو کیسے تکلیف کی میں حضرت صاحب سے تمام واقعہ عرض کیا اور کہا کہ جناب یہ
اندھا ہو گیا ہے۔ بظاہر آنکھیں ٹھیک ہیں لیکن آنکھوں کا نور ختم ہو گیا ہے۔ آپ ارزاہ
کرم اس کی گستاخی کو معاف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس کی بینائی کو واپس
کر دے یہ سن کر حضرت صاحب نے اس کے حق میں دعا فرمائی کہ یا اللہ بیماروں کو شفا عطا
فرما۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہو نے کے بعد اس کو لے کر ایک دوست کے گھر پہنچا آدھی رات
کے وقت وہ شخص اٹھا اور کہنے لگا پیر چراغ شاہ صاحب نماز تہجد کا وقت ہو گیا۔ اٹھو
اور نماز تہجد پڑھ لو میں نے اس سے پوچھا تمہیں تو نظر کچھ نہیں آتا۔ تجھے کس طرح معلوم
ہے کہ نما ز تہجد کا وقت ہو گیا ہے۔ کہنے لگا میری نظر ٹھیک ہو گئی ہے اور آنکھیں پہلے
سے کہیں زیادہ روشن ہو گئی ہیں یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ صبح کی نماز سے
فارغ ہو کر حضرت صاحب کو آنکھوں کی بینائی واپس آجانے کی اطلاع دی اور اجازت لے کر
ہم واپس آگئے۔
سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میرے ہاں اولاد
نہیں ہوتی تھی ایک دفعہ میری بیوی نے مجھ سے اصرار کیا کہ اپنے شیخ صاحب کی خدمت میں
حاضر ہو کر اولاد کی دعا کراؤ۔ میں بیوی کی اس بات پر متفق ہو گیا اور دربار شریف چلا
گیا صبح کا وقت تھا۔ حضرت سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں مراقبہ کیے ہوئے
بیٹھے تھے۔ میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے مؤدب دو زانوں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد
حضرت صاحب نے مراقبہ سے سر اٹھایا اور میری طرف دیکھا میں نے آگے بڑھ کر حضور کی قدم
بوسی کی آپ سرکار نے خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا۔ شاہ صاحب کیسے تشریف لائے ہو
عرض کیا حضور ایک خواہش لے کر آیا ہوں حکم ہو تو عرض کروں حضور قبلہ عالم نے ارشاد
فرمایا کہ دل کی بات کہو عرض کیا حضور اولاد نہیں دعا کریں کہ اللہ مجھے نیک اولاد
دے۔
یہ سن کر قبلہ عالم نے اپنا سر مبارک نیچے جھکا لیا کچھ دیر
کے بعد سر مبارک اٹھا کر بولے شاہ صاحب آپ کے ہاں اولاد نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا حضور
دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایک فرزند ہی عطا کردے آپ نے پھر مراقبہ کیا اور کچھ عرصہ
کے بعد فرمایا کہ میں دیکھ چکا ہوں کہ آپ کے مقدر میں اولاد ہے ہی نہیں۔
میں نے رو کر عرض کیا کہ حضور اگر مقدر میں اولاد ہوتی تو یہاں
آنے کی کیا ضرورت تھی میں تو یہاں آیا ہی اس لیے ہوں کہ یہ ولی کا دربار ہے اور جو
یہاں آتا ہے اس کو خالی واپس نہیں کیا جاتا۔ یہ سن کر آپ نے پھر مراقبہ کیا اور فرمایا
کہ جاؤ آپ کے گھر اولاد نہیں ہوگی۔ البتہ اللہ تعالیٰ آپ کو کسی اور برادری کا لڑکا
عطا کر ے گا۔ جس کا تعلق آرائیں برادری سے ہوگا اس کا نام غلام حسین رکھنا آپ کے بعد
آپ کاجانشین ہوگاچراغ علی شاہ فرماتے تھے کہ میں خاموش ہوگیا اور گھر واپس آگیا۔ کچھ
دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بچہ دیا جو آرائیں برادری سے متعلق تھا ہم نے
اس کا نام غلام حسین رکھا۔ یہی بچہ آج چراغ علی شاہ کی وفات کے بعد آپ کا جا نشین ہے۔
٭۔ارشادات قدسیہ:
۱۔ سب
سے بڑی کرامت سنت مصطفی ﷺ کی پیروی ہے۔
۲۔ استقامت
حاصل کرو تمہارا ہر کام کرامت بن جائے گا۔
۳۔ دنیا
کے مال کے بھوکے کو کبھی حقیقی راحت نہیں مل سکتی۔
۴۔ عابد
کو کھانا کھلانا عبادت میں مدد کرنا ہے۔اور فاسق کو کھانا کھلانا فسق کی مدد کرنا ہے۔
۵۔ دولت
مند ہر پیغمبر کو جھٹلاتے رہے اور مسکین غریب ہی ان کی تصدیق کرتے رہے ہیں۔
۶۔ کرامت
کا مفہوم یہ ہے کہ ولی درخت سے بات کرے تو درخت اس کو جواب دے۔
۷۔ جوانی
کے دھوکے میں نہ آ ؤ کیونکہ بوڑھا ہونے سے قبل کئی جوان گزر چکے ہیں۔
۸۔ عبادت
ایسی کرو کہ تمہاری روح کو مزا آجائے۔ جو عبادت دنیا میں مزا نہ دے گی وہ عاقبت میں
کیا جزا دے گی۔
۹۔ اللہ
تعالیٰ کی اطاعت اپنی جان پر جبر کیے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔
۰۱۔ اسلام
غریبوں میں ظاہر ہوا اور عنقریب غریبوں میں ہی رہ جائے گا۔
٭۔ خلفاء:
۔ سید عابدعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
۔ سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
[/pl_text][/pl_col][/pl_row]