پیرطریقت ، رہبرِ شریعت، واقفِ رموز حقیقت و معرفت، زینت
دنیائے تصوف
حضرت پیرسید اعظم
علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ
٭۔تعارف:
کسی ایک عظیم خاندان میں یکے بعد دیگرے عظیم المرتبت شخصیات
کا وجود نعمت خداوندی سے کم نہیں ہے۔ اس لحاظ سے آستانہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ
کمانوالہ شریف سیالکو ٹ کو دیکھیں تو اس خانوادۂ معرفت میں ادوار کی ترتیب سے ایسی
سر بلند شخصیات کا وجود سامنے آتا ہے جنہوں نے اپنی خداداد علمی و روحانی صلاحیتوں
اور ایمانی تب وتاب کی بدولت نہ صرف اپنے اسلاف کے معیار کو جاودانی عظمت عطا کی
بلکہ ان کے روحانی مشن کو اپنے اپنے عہد کے تقاضوں کے مطابق زیادہ سے زیادہ آگے
بڑھا نے کی کوشش کی۔
کمانوالہ شریف سیالکوٹ کے آستانہ عالیہ کو جو لافانی عظمت
قطب عالم، شیخ المشائخ پیر طریقت، اسرار رموز حقیقت پیر سیّد راجن علی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کے فیضان نظر کی بدولت حاصل ہوئی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے بعد آپ کی
آنے والوں نسلوں نے اس سر بلندی کو قائم رکھنے کی بدرجہ اتم کوشش کی۔
پیر طریقت رہبر شریعت پیر سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
کے فرزند ارجمند حضرت پیر سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور پھر آپ کے پوتے رہبر
شریعت، پیر طریقت حضرت پیر سیّد اعظم علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ نے جس شان کے ساتھ اپنے
جلیل القدر جد امجد کے روحانی سلسلے کو آگے بڑھایا اس کا تذکرہ ہر لحاظ سے ایمان افروز
ہے۔
حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے اوصاف حسنہ
اور عادات عالیہ کے لحاظ سے اپنے دادا کی حقیقی تصویر تھے۔ وہی جلال قلندرانہ، وہی
جمال معرفت وہی روحانی ادائیں وہی ایمانی جگمگاہٹیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا
قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ صورت و سیرت کے لحاظ سے عظمت ایمان کا مکمل
نمونہ تھے۔ اور روحانی جلال و جمال کے امتزاج سے چہرے پر ہر وقت فکری و نظری شکوہ کی
علامات نظر آتی تھیں۔
وہ علاقے اور بستیاں خوش بخت ہوتے ہیں کہ جنہیں کسی مرد کامل
سے نسبت ہوتی ہے۔ پیر طریقت، رہبر شریعت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی حیات
مقدسہ احکامات ربانی اور ارشادات سرکار دو عالم ﷺ کی جگمگاتی تفسیر تھی۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ رضائے خداوندی اور منشائے قدرت کی خاطر و قف کر
کے ثابت کر دیا کہ محبان مصطفیﷺ کا مرنا اور جینا فقط اسلام اور قرآن کے لیے ہوتا ہے۔
نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی زندہ مثال بن کر آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے قسمت حیات کو ضو فگن کر دیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ریا کاری کی عبادت سے نفرت
فرماتے تھے۔ اپنے نیاز مندوں کو بھی یہی نصیحت فرماتے کہ عبادت و ریاضت محض خدا تعالیٰ
کے لیے ہوتی ہے۔ خلق خدا میں ناموری حاصل کرنے کے لیے نہیں ہوتی آپ کا لباس بھی عام
درویشوں اور فقیروں کی طرح نہیں ہوتا تھا۔
گڈڑی یا پیوند لگے ہوئے لباس نہیں پہنتے تھے کہ اس طرح فقیری
کا غرور آتا ہے۔ کم قیمت دستار مبارک زیب سر رکھتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے
تھے کہ ہمارے زمانے میں بہت سے لوگوں نے گڈڑی کا استعمال اور کرامات کے اظہار میں عزت
و جاہ اور حصو ل مال کا ذریعہ بنا رکھا ہے کہ لوگ دیکھتے ہی کہیں کہ وہ درویش ہے یہ
محض خود ستانی اور ریاکاری ہے۔
حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے حسن اخلاق نے
عوام کے دلوں کو تسخیر کر لیا تھا۔ کوئی شخص حاضر خدمت ہوتا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ اس
پر اس قدر مہربانی فرماتے کہ وہ سوچنے لگتا کہ مجھ جیسی شفقت آپ نے کسی اور پر نہیں
فرمائی ہوگی۔ حالانکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت سمندر کی صورت تھی جس سے ایک زمانہ
سیراب ہو رہا تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اہل ایمان کو سمجھایا کہ انسان نفس، دل، اور
روح کا مجموعہ ہے ان میں سے ہر ایک کی اصلاح مقصود ہے نفس کی اصلاح شریعت سے، دل کی
طریقت سے اور روح کی اصلاح حقیقت سے ہوتی ہے۔
حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب کرامت بزرگ
تھے۔ جب کوئی صاحب ایمان رضائے خداوندی میں ڈھل جاتا ہے اور اس کی زندگی مکمل طور پر
منشائے ربانی کی تصویر بن جاتی ہے تو پھر اس کی زبان قدرت کی ترجمان بن جاتی ہے اور
اس کی تدبیر تقدیر کی پر تو لنے لگتی ہے۔ حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
کی پوری زندگی رضائے الہی کے تابع تھی اس لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو اس قدر نوازا کہ
آپ رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ زبان سے کہتے وہ رضائے الہی سے ہو جاتا۔
حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کرامتوں کے اظہار
کو مناسب نہیں سمجھتے تھے بلکہ اسے درویش کی تشہیر خیال کرتے تھے۔ آپ حتی الامکان کرامتوں
کو پوشیدہ رکھتے تھے پھر بھی وہ ظاہر ہو کر رہتی تھیں۔
٭۔ کشف و کرامات:
(۱)
نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
عبدالرؤف مغل سیالکوٹ شہر سے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت
بیان کرتا ہے کہ:۔ عرصہ قبل میں ایک ماہر نجومی کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ برج کے
لحاظ سے اور میرے ہاتھوں کی لکیروں کے حساب میرے آنے والے وقت کا حساب لگاؤکہ میرا
آنے والا وقت کیسا ہے۔ اس نجومی نے میرے ہاتھوں کے فنگر پرنٹ لیے میرے نام کے حروف
اعداد نکال کر دیکھا تو وہ فکر مند ہوکر کہنے لگا کہ تمہارے ہاتھ کی لکیریں بتاتی ہیں
کہ تمہاری زندگی تھوڑی رہ گئی ہے پانچ سال کے اندر تم نے کسی حادثہ یا بیماری سے اس
دنیا کو چھوڑ جانا ہے۔
ماہر نجومی کا بنایا ہوا سارا زائچہ لے کر میں حضرت صاحب رحمۃ
اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ساری صورت حال بیان کی آپ رحمۃ اللہ علیہ
نے سارا واقعہ سننے کے بعد کہا کہ اس نجومی نے تمہاری زندگی تقریباً پانچ سال رکھ دی
ہے وہ زندگی ختم ہو جانے کے بارے میں بتا سکتا ہے لیکن اس کو بڑھا نہیں سکتا پانچ کے
آگے صفر میں لگاتا ہوں اب بتاؤ کتنے بنے۔ میں نے عرض کیا جناب پانچ کے آگے صفر لگانے
سے پچاس (50)بنے تو حضرت صاحب نے ارشاد فرمایا جاؤ اس نجومی سے اپنا پھر حساب لگواؤ۔
میں دوبارہ اس نجومی کے پاس پہنچا پھر اس سے اپنا حساب و کتاب
لگانے کو کہا اس نے دوبارہ میرے فنگر پرنٹ لیے نام کے اعدا کے لحاظ سے برج دیکھا تو
وہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ فنگر پرنٹ بدل گئے ہیں یعنی کہ ہاتھوں کی لکیریں
بد ل گئی ہیں اور نام کا برج بھی بدل گیا ہے۔ نجومی حیران تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے
کہ ایک دن میں یہ سب کچھ بدل گیا ہے۔ یہ ہے کرامت حضرت صاحب کی کہ صرف ایک نگاہ سے
ہاتھوں کی لکیریں ہی نہیں بدلیں بلکہ نام کا برج بھی بدل گیا۔
(۲)
حاجی محمد بشیر مؤزن جامع مسجد عابد کمانوالہ شریف سیالکوٹ فرماتے
ہیں کہ علالت کے آخری ایام میں حضرت صاحب عصر کی نماز کے بعد فرمانے لگے آج سے ہم نے
ہر قسم کی دوائی کھانی چھوڑ دی ہے اب ہم نے بالکل ٹھیک ہو جانا ہے ایسا ٹھیک ہونا ہے
کہ دوبارہ بیمار ہی نہیں ہونا۔ اس ضعف کی حالت میں آپ سے بہت کچھ دقائق معلوم ظاہر
ہوتے تھے دو دن بعد اس فانی دنیا سے آپ رحمۃ اللہ علیہ پردہ فرما گئے۔
(۳)
٭۔باطنی تصرّف:
جب کوئی مہمان آپ کے گھر آنے والا ہوتا تو اس دن مہمان کے آنے
سے قبل کھانے پینے کا سامان بازار سے منگوا لیتے اس کا راز جب آپ سے پوچھا گیا تو آپ
سرکار نے فرمایا ایک جن میرے تابع ہے یعنی کہ میرا مرید ہے وہ مجھ کو مہمان کے آنے
کی پہلے سے مجھ کو خبر دے دیتا ہے۔ یہ بات محض اپنا حال پوشیدہ رکھنے کے لیے آپ نے
فرمائی تھی۔
(۴)
٭۔لاعلاج مریضوں کو شفاء:
ایک دن آپ کا ایک مرید حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض
کی حضور میری بیوی سخت بیما ر ہے حس و حرکت نہیں کر سکتی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے
اور کہا کہ اس کا مرض ہماری سمجھ سے باہر ہے اب اس کی زندگی کی کوئی امید باقی نہیں
ہے۔ اس کی جتنی خدمت کر سکتے ہو کرو۔
حضرت صاحب نے فرمایا کہ تم اپنے گھر واپس جاؤ اور ایک چادر اپنی
بیوی کے اوپر اوڑھا دو چنانچہ وہ صاحب اپنے گھر گئے اور ایک چادر لے کر اس بیمار عورت
کے اوپر ڈال دی۔ حضرت صاحب اس گھر میں تشریف فرما ہوئے اور اس بیمار عورت کی چارپائی
کے اس کچھ دیر کھڑے رہے اور دفع مرض کے لیے اس پر توجہ کی اس کے بعد فرمایا کہ اس کی
صحت ٹھیک ہو جائے گی۔ پھر آپ باہر تشریف لے آئے اور و ہ مرید بھی حضرت صاحب کو رخصت
کر نے کے لیے دروازے تک باہر آیا۔ حضرت صاحب کے چلے جانے کے بعد جب وہ واپس لوٹا تو
دیکھا کہ اسکی بیوی صحیح اور تندرست بیٹھی ہوئی ہے مرض اس پر باقی نہیں رہا۔
(۵)
٭۔ جنتی ہونے کی سند:
وصال با کمال سے چند دن قبل آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے
سنایا گیا ہے کہ جس غرض اور مقصد کے لیے تم کو لایا گیا تھا وہ پوری ہوگئی اب کوچ کر
نا چاہیے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ دو دفعہ فرمایا۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے
یہ اعزاد اور عزت بخشی ہے کہ جو شخص میرا جنازہ پڑھے گا اسے جنّتی ہونے کی سند مل جائے
گی یعنی کہ وہ جنتی ہے۔ پھر فرمایا کہ ولی کے وصال اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے۔
(۶)
٭۔پتھری کا ریزہ ریزہ ہو جانا:
ایک مرید جو کہ سرگودھا کے رہنے والے ہیں انہوں نے آپ کی کرامت
بیان فرمائی کہ میرے مثانے میں پتھری تھی جس کی وجہ سے بڑی تکلیف تھی رفع حاجت کے وقت
بڑی سخت درد ہوتی تھی ایسی درد کہ پریشان کر دیتی تھی۔ مختلف ڈاکٹروں سے چیک کروایا
ڈاکٹروں نے آپریشن کروانے کی تجویز دی بہت سے حکیموں سے بھی علاج کروایا کوئی فائدہ
نہ ہوا۔ آخر کار حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کی حاضر ہوا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے
ایک تعویز لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اسے برتن میں پانی ڈال کر رکھ دیں اور وہ پانی
پیا کریں ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ پتھری ریزہ ریزہ ٹوٹ کر پیشاب کے ساتھ باہر نکل
آئی۔ الحمد اللہ اس کے بعد میں آج تک خیریت سے ہوں۔
(۷)
٭۔ حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا دست شفقت:
قبلہ حضرت پیر سیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ
ایک دفعہ میرے والدمحترم حضرت سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے فرمایا کہ
بیٹا جاؤ لاہور جا کر داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ آستانہ عالیہ کی حاضری دے آؤ میں نے
عرض کی اس سے قبل آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی نہیں فرمایا! توفرمانے لگے بیٹا آج داتا
گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ صاحبزادہ صاحب یعنی اپنے لخت جگر کو میرے ہاں
بھیجیں یہ سن کر میں لاہور داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پرحاضر ہوا حاضری
کے جب میں واپس آیا تو قبلہ والد صاحب فرمانے لگے داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ رات کو
فرما رہے تھے کہ صاحبزادہ میرے ہاں تشریف لائے ہیں اوران کے سینہ کو مرکز فیوض و برکات
بنا کے بھیجا ہے۔
٭۔ روحانی تعلیمات:
حضرت پیرسیّد اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات کافی ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی تصرفات کی شاہد کئی کرامات کا مطالعہ ذوق ایمانی کو تازہ
کر نے کا باعث بنتا ہے لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ آپ رحمۃ
اللہ علیہ نے مردہ دلوں کو زندہ کر دیا، گمراہوں کو جادۂ حق پر گامزن کر دیا۔ بے یقینوں
کو ایمان و یقین کی دولت عطا کی، جاہ پرستوں اور مال و دولت کے پرستاروں کو خدا اور
رسول خدا ﷺ کی محبت بخشی دل و جان کو معرفت سے آشنا کیا۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات کی بدولت ایک ایسا انقلاب
برپا کر دیا کہ جس کی بدولت سے شمار انسانوں کی زندگیاں ہدایت و فلاح کے سانچے میں
ڈھل گئیں۔ اصلاح و احوال کے لیے آپ نے جو کردار ادا کیا ہے حقیقت میں یہی آپ کی سب
سے بڑی کرامت ہے۔
٭۔ وصال پر ملال:
حضرت صاحب اپنی عمر شریف کے آخری برسوں میں اکثر بیمار رہنے
لگے تھے۔میو ہسپتال لاہور میں داخل ہوئے۔ شوگر، بلڈ پریشر، اور فالج نے آپ کی صحت کو
بے بس کر کے رکھ دیا اور آپ اللہ کی رضا پر راضی تھے۔ قبلہ عالم حضرت پیر سیّد اعظم
علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی تاریخ وصال باکمال 30ربیع الثانی 1429ہجری بروز بدھ بمطابق
07مئی 2008ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نماز جنازہ بروز جمعرات دن10بجے ادا کیاگیا۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے نماز جنازہ میں ہزاروں ارادت مندوں نے
شرکت کی ہر مسلک کے علماء بھی کثیر تعداد میں نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ آپ رحمۃ اللہ
علیہ کی وصال کی خبر ارادت مندوں اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ روحانیت وابستگان
کے لیے رنج و الم کی شدت کا باعث ہوئی۔
یاد رہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مرشد کامل حضرت پیر سیّد
عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ظاہری و باطنی اتباع کا حقیقی نمونہ خواص و عوام کے
سامنے اس شان کے ساتھ پیش کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ سب فنا فی الشیخ کے درجات
اولیٰ ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی عمر اور اقوال و اعمال میں بھی اپنے باپ پیر طریقت
رہبر شریعت پیر سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوری طرح مطابقت رکھتے تھے۔ کسی
بھی مقصد میں کامیابی پر اپنے باپ کی دعا سمجھتے۔ آج قبلہ عالم حضرت پیر سیّد اعظم
علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ظاہری طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں مگر آپ رحمۃ اللہ
علیہ نے علم و حکمت کے جو چراغ فروزاں کیے تھے وہ زمانے کی باد صر صر کو خاطر میں نہ
لاتے ہوئے ہمیشہ روشنی بکھیرنے کا باعث بنتے رہیں گے۔
٭۔ ارشادات قدسیہ:
1.
اعلیٰ حضرت قبلہ عالم حضرت سید اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
سب دوستوں کو فرمایا کرتے کہ سب سے بڑا وظیفہ اللہ کی یاد۔ ہاتھوں سے کام زبان سے باتیں
لیکن دل دھیان کے ساتھ اللہ ہو۔ کوئی سانس اللہ کی یاد کے بغیر نہ جائے۔
2.
ہماری طریقت کی بنیاد حضور ﷺ کی اتباع ہے آپ ﷺ کی سنت کے خلاف
کوئی کام نہ ہوجب سرکار دو عالم ﷺ کی حدیث مبارک سنو تو عمل کرنے کی نیت سے یاد رکھو
نہ کہ سننے سنانے کی نیت سے۔
3.
جب برائی سننے کو نا پسند کرتا ہے اسی طرح اپنے آپ کو مدح سرائی
سے بچا۔
4.
شیطان کو سب سے پیارا بخیل مسلمان اور نا پسندیدہ گنہگار سخی
ہے۔
5.
سب سے زیادہ سخت عذاب عالم بے عمل پر ہوگا۔
6.
فقیر پر سخاوت کر کے احسان نہ جتا۔ بلکہ اس کے قبول کرنے کا
خود احسان مندہو۔
7.
وہ دعوت سب سے بد تر ہے جس میں امیر بلائیں جائیں۔اور غریب و
مسکین نہ بلائیں جائیں۔
8.
زیادہ سونا اور زیادہ کھانا انسان کو اندر سے تباہ کر دیتا ہے۔
9.
بہت سے لوگ غسل سے پاک ہوجاتے ہیں۔ لیکن بہت سے بد باطن حج و
زیارت کعبہ کے بعد بھی نجس لوٹتے ہیں۔
10.
اللہ تعالیٰ کو جاننا یہ ہے کہ شرک نہ کرے۔ اور سرکار دو عالم
ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا رسول سمجھنا یہ ہے کہ اس کے سوا کسی کی پیروی و اطاعت نہ کی جائے۔
11.
عمل کی سستی پر مغفرت کی امید ہے لیکن بد اعتقادی پر نہیں۔
12.
تو نفس کی تمنا پوری کرنے میں مصروف ہے اور وہ تجھ کو برباد
کرنے میں مصروف ہے۔
٭۔ اولاد اطہار:
آپ رحمۃ اللہ علیہ کے چھ صاحبزادے ہیں۔ جن کے نام یہ ہیں۔
1.
صاحبزادہ حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ
2.
صاحبزادہ سید امتیاز الحسن شاہ صاحب
3.
صاحبزادہ سید مظہر عباس شاہ صاحب
4.
صاحبزادہ سید زاہد علی شاہ صاحب
5.
صاحبزادہ سید شعیب الحسن شاہ صاحب
6.
صاحبزادہ سید اسد رضا شاہ صاحب
[/pl_text][/pl_col][/pl_row][pl_row pagelayer-id=”dLZKAU7wkudI28tr” stretch=”auto” col_gap=”10″ width_content=”auto” row_height=”default” overlay_hover_delay=”400″ row_shape_top_color=”#227bc3″ row_shape_top_width=”100″ row_shape_top_height=”100″ row_shape_bottom_color=”#e44993″ row_shape_bottom_width=”100″ row_shape_bottom_height=”100″][pl_col pagelayer-id=”HVBk4HA5FQg6Z7x9″ widget_space=”15″ overlay_hover_delay=”400″][pl_heading pagelayer-id=”07EwulGW9WqNplhI” heading_state=”normal” color=”#111111″]
منقبت“درمدح حضور پیر سید اعظم علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
از قلم۔
حضرت علامہ پیر سید جعفر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ
[/pl_heading][/pl_col][/pl_row][pl_row pagelayer-id=”Cr5ef8MwTInorHcI” stretch=”auto” col_gap=”10″ width_content=”auto” row_height=”default” overlay_hover_delay=”400″ row_shape_top_color=”#227bc3″ row_shape_top_width=”100″ row_shape_top_height=”100″ row_shape_bottom_color=”#e44993″ row_shape_bottom_width=”100″ row_shape_bottom_height=”100″][pl_col pagelayer-id=”m1sUiAmnTZQuxUMg” widget_space=”15″ overlay_hover_delay=”400″][pl_text pagelayer-id=”1YGQuVKjdWReGaFt” ]اے رہبرِ ملّت، اے قُطبِ زماں
چار سُو ہے آپ کے علم و عمل کی دستاں
اصفیاء و اتقیاء حکام و علماء
سبھی تھے خوشہ جبیں آپ کے اے مہرباں
قابلِ رشک تھی زندگی آپ کی اے امام
بحرِ سالکاں و عارفاں و عالماں
فہم و صداقت و گفتار و کردار
ہِیچ ہیں آپ کے سامنے تمام بحرِ بیکراں
تابندہ و چوبندہ تھی چال آپ کی
بن کے رہے آپ مسلکِ حق کے پاسباں
افسردہ نظر آئے اصاغر و اکابر سارے
اب کون پوچھے گا کیوں آئے ہو یہاں
دے رہی ہیں گواہی کمانوالہ شریف کی گلیاں
خود مٹنے والوں کا مٹتا نہیں نشاں
فقط یہی ہے دعائے ناچیز ”فقیر“ کی یا الٰہی
تا قیامت چلتا رہے یوں ہی سارا کارواں
[/pl_text][/pl_col][/pl_row]