حکایاتِ مولانا رومی رحمتہ اللّہ علیہ
⚘مَیں” مَرّ جائے تو عِشق پختہ ہوتا ہے ⚘
عاشق اپنے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کی غرض سے اس کے در پر پہنچا۔
دستک دی تو اندر سے آواز آئی۔
” کون ہے؟ “
عاشق نے پُرنم آنکھوں اور دلِ بے قرار کے ساتھ جواب دیا۔
” مَیں ہوں،دید کو ترس گیا ہوں۔ “
اندر سے جواب ملا !
” واپس چلا جا،میرے چاہنے والوں میں ” مَیں ” کوئی نہیں ہے۔ابھی تجھ سے غرور و تکبّر کی بُو آتی ہے۔تیری ” انا ” باقی ہے۔جا کچھ عرصہ اور ہجر و فراق کی آگ میں جل۔ “
عاشق نامراد مایوس ہو کر واپس لوٹ گیا۔کچھ ماہ و سال اور گزرے محبوب کی جدائی میں جلا،صدمہ فراق سہتا رہا۔جب پھر محبوب کے دروازے پر سودائی اور دیوانہ بنا حاضر ہُوا تو محبوب نے اس بار پھر پچھلا سوال دہرایا۔
” دروازے پر کون ہے؟ “
عاشق نے عجز و انکساری اور ادب سے جواب دیا۔
” میری جاں! دروازے پر بھی تُو ہی ہے۔ “
محبوب نے یہ الفاظ سنے تو کہا:
” اب تیری “مَیں” ختم ہو گئی ہے جب من و تُو کا جھگڑا ہی ختم ہُوا تو پھر دوری کیسی آ جاؤ اجازت ہے۔ “
اِس حکایت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ نفی ذات کے بغیر منزل نہیں ملتی۔