زبدۃ الاصفیاء، امام الاتقیاء، عارف شریعت رہبر طریقت شہنشاہ اولیا ء منبع رشد و ہدایت سیدی و مرشدی جناب سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ
٭۔تعارف:
زبدۃ الاصفیاء، امام الاتقیاء، عارف شریعت رہبر طریقت شہنشاہ اولیا ء منبع رشد و ہدایت سیدی و مرشدی جناب سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کمانوالہ متصل سیالکوٹ کے رہنے والے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد ماجد کا اسم گرامی سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کمانوالہ متصل سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور آپ کے دادا کا نام جناب سیّد نیاز علی شاہ صاحب تھا۔ طریقت کی ابتدائی منازل آپ نے اپنے والد کے زیر سایہ طے کیں اور خلافت و اجازت بھی اپنے والد صاحب ہی سے عطا ہوئی آپ کی زندگی کے ہر قدم پر شریعت مصطفوی ﷺ کو اپناتے اور دوسروں کو اپنانے کی تلقین کرتے۔
٭۔ لباس مبارک:
آپ کا لباس نہایت سادہ مگر صاف ستھرا پاؤں مبارک میں وہی پرانی طرز کا موچی کا بنا ہوا دیسی جوتا پہنتے آپ کے لباس میں شلوار اور قمیض کو خاص اہمیت تھی۔ سر مبارک پر مونگیا رنگ کا عمامہ پہنتے اور عمامہ کے نیچے تنکوں کی بنی ہوئی سادہ ٹوپہ پہنتے تھے آپ اکثر روزہ سے ہوتے کبھی کبھی تو چھ چھ ماہ کے روزے بدستور رکھتے چلے جاتے۔
٭۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک نہایت خوبصورت تھا رنگ سفید اور سرخ، ریش مبارک بمطابق سنت لیکن ریش مبارک تمام سفید تھی اور چہرہ پر خوبصورت لگ رہی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا قد درمیانہ اور جسم بھرا ہو تھا آپ کے دانت مبارک موتیوں کی طرح چمکتے دکھائی دیتے۔ میں نے پوری عمر آپ کے چہرہ انور پر ناراضگی اور غصہ کے آثار نہیں دیکھے بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ انور ہر وقت ہشاش بشاش رہتا تھا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے آپ مسکر ا رہے ہیں۔
آپ حلیم طبع منکسر المزاج بر د بار اور اخلاق حسنہ سے متصف تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سادہ غذا کھاتے سادگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کسی بھی مرید کے ہاں تشریف لے جاتے تو اسے آپ کے کھانے کا بندوبست کر نے میں کوئی تکلیف محسوس نہ ہوتی تھی۔
٭۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دسمبر 1971ء کی جنگ کے اختتام پر سرکار دورہ پر تشریف لائے میں سکول میں بچوں کو پڑھا نے میں مصروف تھا اچانک حضرت صاحب کی آمد ہوئی میں ادب کے ساتھ کھڑا ہوا قدم بوسی کی اور سرکار کے بیٹھنے کا بندو بست کرنے ہی والا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا یہاں نہیں ٹھہر نا لشکری چک چلنا ہے میں نے حکم کی تعمیل کی اور حضرت صاحب کے ساتھ چل پڑا جب ہم ساکن لشکری چک پہنچے تو چونکہ گاؤں بارڈر لائن کے با لکل قریب تھا اور جنگ کی وجہ سے انہوں نے اپنا گھریلو سامان کہیں دور رشتہ داروں کے گھر رکھا ہو اتھا بارش بھی شروع ہو گئی اور وقت کی تنگی کی وجہ سے خوراک کا مناسب بندوبست نہ ہوسکا اور کھانا اچھے طریقے سے نہ پک سکا میں اپنے دل میں خیال کر رہا تھا کہ شاید حضرت صاحب یہ کھانا پسند نہ کریں جب کھانا سامنے آیا تو نہایت ہی سادہ قسم کا تھا۔
سرکار نے کھانا شروع کیا میں نے نظر بچا کر سرکار کی طرف دیکھا تو سرکار بڑے مزے سے اور خوشی سے وہ کھانا تناول فرما رہے تھے اور یہ محسوس ہو رہا تھا کہ سر کار کویہ کھانا بہت پسند ہے کھانے میں سرکار کی سادگی کا یہ عالم تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کھانے میں نقص نہیں نکالتے تھے اگر نمک مرچ یا کھانڈ وغیرہ کم ہو تب بھی آپ رحمۃ اللہ علیہ نہیں مانگتے تھے بلکہ جودستر خوان پر پڑا ہوتا اسی پر قناعت کرتے۔
٭۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہمیشہ پید ل سفر کرتے ایک دفعہ گرمیوں کے موسم میں دوپہر کے وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ اکیلے ہمارے گاؤں جا رہے تھے میں بھی سائیکل پر سوار ہو کر گھر آ رہا تھا راستہ میں حضرت صاحب کو دیکھ کر میں سائیکل سے اترا اور حضرت صاحب کو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک وہ گرمی اف توبہ! اور دوسرا پیدل میں نے عرض کیا حضور سائیکل پر سوار ہو چلیں آپ رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے نہیں پیدل ہی چلیں گے کیونکہ یہ مسنون طریقہ ہے اور مجھے پیدل چلنے میں مزا آتا ہے۔
٭۔ طریقہ عبادت:
شیخ کامل جناب سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ پنجگانہ نماز پابندی کے ساتھ با جماعت مسجد میں ادا فرماتے تھے۔ اگر سفر پر ہوتے تو بھی مسجد ہی میں جا کر نماز با جماعت ادا کرتے۔ جب کبھی موسم خراب ہوتا یا راستہ دشوار ہوتا تو پھر گھر پر ہی نماز پڑھ لیتے لیکن اس میں بھی جماعت کا اہتمام ہوتا تھا۔ فرض نماز کے علاوہ نوافل کثرت سے پڑھتے تھے نوافل میں نماز تہجد کے نوافل کو خاص اہمیت دیتے تھے۔ آدھی رات کے بعد بستر چھوڑ دیتے اور مسجد میں جا کر یا گھر میں نماز تہجد ادا فرماتے تھے نفل پڑھنے کے بعد قصیدہ غوثیہ پڑھتے اور پھر ذکر و ازکار میں مصروف ہو جاتے اور فجر تک ذکر میں مشغول رہتے پھر فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد باآواز بلند سب دوستوں کے ساتھ مل کر صلوۃ و سلام پڑھتے اور پھر دعا مانگتے دعا کے بعد صف پر قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاتے اور دعا ”حزب البحر“ کے عمل میں مصروف ہو جاتے اور کسی سے گفتگو نہ کرتے تھے۔
حتی کہ نفل اشراق ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر تشریف لاتے اور ناشتہ فر ما کر مریدین سے ملنے کا سلسلہ شروع فرما دیتے حتی کہ نماز ظہر کا وقت ہو جاتا نماز ظہر ادا کرنے کے بعد پھر مریدین سے ملنے کا سلسلہ شروع فرما دیتے حتی کہ نماز عصر ادا کرنے کے بعد کبھی کبھی باہر کھیتوں میں سیر کو جایا کرتے یا پھر مسجدہی میں بیٹھے رہتے اور ختم خواجگان پڑھتے حتی کہ مغرب کا وقت ہوجاتا مغرب کی نماز بعد چھ نفل ادا فرماتے اور دعا مانگ کر مسجد سے باہر تشریف لائے شام کا کھانا کھاتے اور پھر مریدوں سے ملنے کا سلسلہ شروع کر دیتے پھر عشاء کے لیے مسجد میں تشریف لاتے اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ہر روز بلاناغہ ذکر و اذکار میں درود شریف ختم خواجگان دعا حزب البحر کو خاص اہمیت دیتے رات دن کا بیشتر حصہ عبادت الہی میں گزارتے بعض دفعہ ساری ساری رات اللہ کے آگے سجدہ کرتے گزار دیتے تھے۔ عبادات سے فارغ وقت میں مخلوق خدا کی خدمت آپ کا شیوہ تھا۔
٭۔ خوف خدا:
میرے شیخ کامل جناب سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ پر خوف خدا دن رات طاری رہتا تھا یہی وجہ تھی کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کسی کا دل نہ دکھاتے بلکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں آنے والا آپ رحمۃ اللہ علیہ کو رحم دل اور شفیق پاتا چہرہ انور پر کبھی ناراضگی کے آثار پیدا نہ ہوتے میں نے جتنا عرصہ حضرت صاحب کے ساتھ گزارا ہے اس عرصہ میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو کسی کے ساتھ با آواز بلند یا ناراضگی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا۔ عشا ء کی نماز کے بعد جب ذکر جہر کرتے تو کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے ترہوتیں ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے والد محترم مولوی برکت علی صاحب مرحوم کے جنازے میں سرکار نے شرکت فرمائی اور نماز جنازہ خود پڑھائی جنازہ پڑھانے کے بعد سرکار قبرستان میں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے سرکا ر کا چہرہ مبارک زرد ہو چکا تھا اور آنکھوں میں آنسو تھے۔اور جسم مبارک لرز رہا تھا اور ارشاد فرمایا کہ تمام دوست ان دوستوں کے لیے دعا مانگو جو اس وقت زمین میں دفن کیے جا چکے ہیں۔ یہ ہمارے ساتھی ہیں اور ہم سفر ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ یہ اپنے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں اور ہم نے لحاف اوڑھ لیا۔ اسی اثناء میں کیا دیکھتا ہوں کہ سرکار نے اپنے اوپر لحاف اوڑھ لیا ہے اور چہرہ انور کو ڈھانپ لیا ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے سرکار رو رہے ہیں۔ یہ تھا خوف خدا کا عالم۔
٭۔ مہمان نوازی:
قبلہ عالم سید عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بہت مہمان نواز تھے مہمانوں کی عزت اور خدمت کرنا آپ رحمۃ اللہ علیہ کا شیوہ تھا مہمانوں کے آگے کھانا اپنے دست مبارک سے لا کر رکھتے تھے اور خود یعنی مہمانوں کے ساتھ کھانے میں شریک ہوتے جب تک سب نہ کھا چکتے اپنا ہاتھ کھانے سے نہ اٹھا تے اور پھر بعد میں دعا مانگتے اور خود برتن اٹھا کر رکھتے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں دربار شریف پرآپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا مغرب کی نماز کے بعد میں سرکار کے مکان کی ملحقہ بیٹھک میں بیٹھ گیا تو مکان کے اندر سرکار اپنے خلیفہ عبداللہ عرف اللہ دا بندہ کو فرما رہے تھے کہ جو مہمان آیا ہے اس کا خاص طور پر خیال رکھنا کھانے کا بندوبست اچھے طریقے سے کرنا اور سونے کے لیے بستر بھی خود بچھا کر دینا۔ کھاناکھانے سے فارغ ہو نے کے بعد میں نے خلیفہ صاحب سے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی دوکان نزدیک ہے کیونکہ مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو خود لے آؤں۔ میں یہ سن کر بہت متاثر ہوا اور عرض کرنے لگا حضور تکلف نہ فرمائیے حضرت صاحب نے فرمایا بیٹا اس میں تکلف کی کیا بات ہے آپ میرے مہمان ہیں اور مہمانوں کی عزت اور خدمت کرنا نبیوں کی سنت ہے۔یہ تھا حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک۔جب کبھی کہیں سے کوئی تحفہ آتا تو تمام مجلس میں تقسیم فرما دیتے تھے جو بچتا وہ خود کھاتے اور اگر نہ بچتا تو خاموش رہتے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سادگی اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ ہر ایک سے گھل مل جاتے تھے میرے مرشد پاک کی زندگی سنت نبوی ﷺ سے بھری ہوئی تھی شریعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے اور دوسروں کو اپنانے کی تلقین کرتے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ جو آدمی اپنی زندگی اسلامی اصولوں اور سنت نبوی ﷺ پر نہیں گزارتا وہ ”حیوان سے بد تر ہے“۔
٭۔ کشف وکرامات:
٭۔محمد علی وڑائچ بھٹے والا ساکن کمانوالہ شریف بیان کر تا ہے کہ 1956ء میں ایک رات کو میں نے پیر سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو گاؤں کے ارد گرد چکر لگاتے دیکھا میں نے عرض کیا حضور اس وقت جب کہ رات کا آدھا حصہ گزر گیا ہے آپ گاؤں کے ارد گرد چکر لگا رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس گاؤں پر عذاب آنے والا ہے آپ اٹھیں اور گاؤں کے ارد گرد چکر لگا کر ”دعائے حزب البحر“ پڑھیں۔ اس لیے دعائے حزب البحر پڑھ رہا ہوں 1965ء کی جنگ میں اور 1971ء کی جنگ میں یہ گاؤں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور حضور قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ کی دعا سے دشمن کے گولوں سے محفوظ رہا حالانکہ یہ گاؤں بارڈر لائن کے بالکل قریب تھا اور اب تک اس گاؤں میں ہر طرح کی خیریت ہے۔
٭۔ حاجی محمد کڑیانوالہ کی بیوی کو جن کا سایہ تھا کافی علاج معالجہ اور دم کرایا لیکن آرام نہ آیا حتی کہ حاجی محمد کا بھائی محمد شریف اور حاجی محمد عورت کو ساتھ لے کر دربار شریف حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ بیٹھک میں تشریف فرما تھے۔ حاجی محمد نے حاضر ہو کر سارا ماجرا سنایا حضرت صاحب نے دم کر کے اس کی بیوی پر پھونک ماری جن حاضر ہوگیا آپ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے کہنے لگا غلام رسول آپ نے فرمایا کہ تو اب کہاں سے آیا ہے اور اس عورت کو کیوں پکڑ رکھا ہے کہنے لگا حضرت میں ان کے ساتھ ہی گھر سے چل پڑا تھا جب یہ ٹانگہ پر سوار ہوئے تو میں ان کے ساتھ تھا بس میں ان کے ساتھ تھا جب یہ آپ کے ہاں پہنچے تو میں مکان کے باہر کھڑا ہو گیا حضرت صاحب نے پوچھا تو ان کے ساتھ اندر کیوں نہیں آیا کہنے لگا حضرت اندر آنے کی اجازت نہیں تھی بغیر اجازت اند ر آنا گستاخی تھی کیونکہ یہ ولی کا دربار ہے۔
حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اب کیوں آیا کہنے لگا آپ نے طلب فرمایا ہے اس لیے حاضر ہوگیا ہوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چلا جا کہنے لگا حضرت چلا جاتا ہوں اس دن سے اس کی بیوی بالکل ٹھیک ہے۔
٭۔ ملک فقیر سائیں صاحب ساکن شادیوال سیالکوٹ بیان کرتے ہیں کہ میرے اولاد نہیں ہوتی تھی میں نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ حضور دعا کریں اللہ تعالیٰ اولاد عطا کرے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا دوسری شادی کرلو اولاد ہوجائے گی میں نے کچھ اس پر دھیان نہ دیا اور دوستوں سے یہ بات بیان کر دی تمام دوستوں نے مجھ سے کہا کہ اگر پہلی بیوی سے اولاد ہوتی تو حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ دعا فرما دیتے جو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے دوسری شادی کر لو آپ کو معلوم ہے کہ دوسری شادی سے اولاد ہو جائے گی۔ یہ سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی بات ہے میں نے دوسری شادی کر لی تو تھوڑے عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد سے سرفراز فرمایا یہ اولاد آپ کی کرامت ہے۔
٭۔ مولوی محمد الدین چنگا سمبڑیال بیان کر تا ہے کہ میں نے اپنی بڑی لڑکی رابعہ بی بی کی شادی وزیر آباد کر دی کچھ عرصہ کے بعد میں اپنی لڑکی کو ملنے کے لیے وزیر آباد آیا کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد میں نے اپنی لڑکی کو کہا بیٹی نماز پڑھا کرو کہنے لگی ابا جی ہم کل کے بھوکے ہیں۔ بھوکے پیٹ نماز کہاں یاد آتی ہے یہ سن کر میرے آنسو جاری ہوگئے۔ اسی وقت سیدھا دربار شریف حاضر ہوا حضرت قبلہ عالم سید عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بیٹھک میں تشریف فرما تھے میں نے با ادب سلام عرض کیا فرمانے لگے محمد الدین کیا حال ہے؟۔
میں رو پڑا اور عرض کیا حضور میرا حال پوچھتے ہو کبھی آپ نے اپنی بیٹی کا حال بھی پوچھا ہے فرمانے لگے کیا بات ہے عرض کیا حضور تنگ دستی اور غربت نے ان کو مار ڈالا ہے حضرت صاحب اسی وقت اٹھے اور فرمانے لگے چلو محمد الدین چل کر بیٹی کا حال پوچھیں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے ساتھ لے کر وزیر آباد آئے حضرت صاحب کو دیکھ کر میری لڑکی بہت خوش ہوئی اور کسی پڑوسی سے ادھار رقم لے کر حضرت صاحب کے لیے چائے تیار کی اور ساتھ بسکٹ پیش کیے حضرت صاحب نے ایک گھونٹ چائے کا اور ایک بسکٹ لے کر باقی تمام میرے حوالے کر کے کہا آپ خود کھا ؤ اور بچوں کو کھلا دو میں نے تھوڑا سے کھانے کے بعد وہ تمام اشیاء اپنی لڑکی کے حوالے کر کے کہا آپ خود کھاؤ اور بچوں کو کھلاؤ اور پھر حضرت صاحب اوپر چادر اوڑھ کر چارپائی پر بیٹھ گئے میں تھکا ہو اتھا تو سو گیا ظہر کے وقت جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حضور قبلہ عالم اسی طرح چاردر اوڑھے منہ ڈھانپے چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں میں نے قریب جا کر حضور سے عرض کیا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے حضور غصہ کی حالت میں فرمانے لگے محمد الدین بیٹھ جاؤ میں خاموشی سے بیٹھ گیا کچھ وقت کے بعد حضرت صاحب نے چادر کو جسم سے الگ کر دیا اور فرمایا محمد الدین دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس بیٹی کے دن بدل دے حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے دعا فرمائی اور پھر ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد واپس دربار شریف تشریف لے آئے محمد الدین بیان کرتا ہے کہ اس دن سے لے کر آج تک میرے بیٹی کے گھر اللہ تعالیٰ نے رزق کے دروازے کھول دئیے اور وہ ابھی تک خوش حال ہیں یہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کا صدقہ ہے۔
مولوی محمد الدین کو قول ہے کہ سید راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو خون جس کی رگوں میں ہے اس کی دعا اللہ تعالیٰ رد نہیں کرتا کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کے اس قدر قریب تھے کہ جو زبان مبارک سے کہتے وہ پوری ہو کے رہتی۔
٭۔ اولاد اطہار:
سیّد ی مرشدی جناب قبلہ عابد علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دو صاحبزادے ہیں جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:۔
سید اعظم علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔(جو آپ کے بعد مسند خلافت پر فائز ہوئے)
سید کاظم علی شاہ صاحب۔
٭۔ حضور قبلہ عالم سیّدی و مرشدی کے ارشادات:
سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات۔ ایک موقع پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
(۱)۔ وہ ولی نہیں ہو سکتا جو حضور اکرم ﷺ کی شریعت مطہرہ کے خلاف کام کرے بلکہ وہ گمراہی کے ایسے گڑھے میں ہے جہاں سے نکلنا مشکل ہے۔
(۲)۔ جو لوگ صحابہ ثلاثہ (حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، کی مخالفت کرتے ہیں وہ گمرا ہ ہیں ان کی مجلسوں سے پرہیز کرو۔
(۳)۔ ایک دفعہ ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ جس زمین پر ولی اللہ چلتا ہے وہ فخر کرتی ہے اور دوسری زمین اس کو مبارک باد دیتی ہے۔
(۴)۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہے وہ نماز میں ہے اگر چہ دنیا ئے بازار میں ہو۔
(۵)۔ طالب دنیا سمندر کا پانی پینے والے کی مثل ہے کہ جس قدر پیتا ہے زیادہ پیاس لگتی ہے۔
(۶)۔ وعظ گوئی سے پرہیز کرو جب تک کہ تم خود پورے عامل نہ بن جاؤ۔
(۷)۔ جس میں ادب و احترام نہیں اس میں برائیاں ہی برائیاں ہیں۔
(۸)۔ پیر وہ ہے جو اپنے مرید کے مال میں اپنی خواہش نہ پائے کیونکہ یہ مرید کی رہنمائی کے خلاف ہے۔
(۹)۔جس نے دولت مند یا مالدار کی تواضع اس کی دولت اور مال کے سبب کی اس نے اپنے دین کا کچھ حصہ بر باد کر ڈالا۔
٭۔ اولیا ء اللہ دل کی بات جانتے ہیں:
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ میں گھر سے حضور قبلہ عالم سیدی و مرشدی جناب عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے ارادہ سے نکلا راستہ میں ایک مسئلہ میرے ذہن میں ابھرا کہ آج قبلہ عالم کی بارگاہ میں یہ مسئلہ پیش کروں گا مسئلہ یو ں تھا کہ جو لوگ شریعت مصطفی ﷺ کی پیروی نہیں کرتے مثلاً نماز روزہ وغیرہ فرائض سے کوتاہی برتتے ہیں اور چرس افیون اور دوسری نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں اور پیری مریدی کرتے ہیں جب ان سے پوچھا جائے کہ آپ نماز نہیں پڑھتے روزہ نہیں رکھتے۔آپ نے داڑھی کیوں منڈوا رکھی ہے اور یہ جو غیر شرعی حرکات آپ کرتے ہیں ان کا کیا مطلب ہے تو وہ یہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں کہ نماز تو ہمارے دل کی ہے اور یہ جو حرکات ہم کرتے ہیں ان میں راز ہے۔ ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے یہ تھا مسئلہ جو چلتے وقت میرے زہن میں ابھرا جب میں دربار شریف پہنچا تو سرکار وہاں تشریف فرما تھے میں جھک کر ادب سے سلام کیا ہاتھ چوما اور دو زانو ں ہو کر قبلہ عالم کے سامنے بیٹھ گیا خیریت دریافت کرنے کے بعد حضرت صاحب مجھ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے۔
بیٹا! جو لوگ شریعت مصطفی ﷺ کی پیروی نہیں کرتے نماز روزہ فرائض سے غفلت برتتے ہیں اور دوسری کئی اور غیر شرعی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں اور پیری مریدی کا ڈھونگ بھی رچا رکھا ہے جب ان سے پوچھا جائے کہ ان کا دعوی کیا اور کام کیسے تو کہتے ہیں کہ یہ فقروں کی راز کی باتیں ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ رات کو چوری کرتا پکڑا گیا تو جب اس سے پوچھا کہ تم نے چوری کیوں کی تو وہ یہ کہتا ہے کہ اس میں راز ہے تو بھلا غور کرنے کے بعد بتاؤ کہ اس میں اس بات کو کون مانے گا سب کہیں گے اس میں راز کی کون سی بات ہے یہ تو چوری واضح ہے اور تم چور ہو۔ بس یہی حال ان لوگوں کا ہے کہ اس
میں راز کی کونسی بات ہے غیر شرعی کام کریں اور خود کو پیر ظاہر کریں یا ولی اللہ کہیں با لکل غلط ہے یہ دنیا کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں شریعت مصطفی ﷺ کے خلاف چل کر ولی بننا تو در کنار انسان انسان ہی نہیں رہ جاتا یہ مسئلہ تھا جو حضرت صاحب نے میرے عرض کرنے سے پہلے ہی مجھ سے فرما دیا۔
24جون 1972ء کو عرس مبارک میں حاضری کے بعد میں گھر واپس آنے کے لیے قبلہ عالم جناب سید عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے جب اجازت طلب کرنے لگا تو اس وقت میں کسی ذہنی پریشانی میں مبتلا تھا اور دل میں یہ خیال بھی تھا کہ حضرت صاحب کے آگے عرض کروں گا کہ حضور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ تمام مشکلات کو حل فرمائے لیکن میرے عرض کرنے سے بیشتر ہی قبلہ عالم نے مجھ سے فرمایا۔ بیٹا نفل تہجد کے بعد ایک دفعہ شجرہ شریف ”مشائخ نقشبندیہ مجددیہ“ پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ مشکلات میں آسانی فرمادیں گے۔
(فائدہ):۔ مندرجہ بالا مضمون سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اولیائے کرام کی نگاہ دل پر ہوتی ہے اس لیے ان کی مجالس میں دل کو سنبھال کر بیٹھنا چاہیے یعنی کسی قسم کا شکو ک وشبہات ان کے متعلق نہ لے کر بیٹھنا چاہیے بلکہ دل کو پاک صاف کر کے ثواب کی نیت سے بیٹھنا چاہیے کیونکہ جو ان کے در سے راند ہ گیا وہ راندہ درگاہی الہی ہوا۔
٭۔ بزبانی محمد حیات جٹ ساکن کُری گجرات:
محمد حیات بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میری بیوی کی ٹانگ میں سخت درد تھا اس دن حضرت پیرسیّدعابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے گھر دورہ پر تشریف فرما تھے مجھے آپ کی آمد کا پتہ چلا تو میں آپ کو ملنے کے لیے موضع خلیل پور گجرات آیا دیکھا تو وہ حضرت قبلہ سیدعابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ صاحب مسجد میں تشریف فرما تھے اور چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے میں بھی قدم بوسی کرنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھ گیا اور اپنی تکلیف بیا ن کی حضرت قبلہ عالم چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو ساتھ لے کر دم کرنے کے بعد کہا چلو کچھ وقت کے بعد آرام آ جائے گا۔
لیکن رات بھر آرام نہیں آیا صبح کو میں دوبارہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور میری بیوی کی ٹانگ بدستور درد کر رہی ہے۔ آپ کے دم کرنے کا کیا فائدہ حضرت صاحب جلال میں آکر فرمانے لگے چلو چل کر دم کریں۔ پیر سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو ساتھ لے کر قبلہ عالم ہمارے گھر تشریف لائے اور میری بیوی کی اس ٹانگ پر اس زور سے ہاتھ مارنے کے بعد فرمانے لگے اب کبھی اس ٹانگ میں درد نہیں ہو گا یہ کہہ کر آپ واپس آگئے میں نے بیوی سے پوچھا کہ کہو کیا حال ہے کہنے لگی درد ختم ہو گیا ہے تھوڑی دیر کے بعد بولی درد تو کیا پوری ٹانگ ہی ختم ہوگئی ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ٹانگ میں طاقت ہی نہیں رہی یعنی ٹانگ کام ہی نہیں کرتی میں پھر حضرت صاحب کے پاس آیا اور عرض کیا حضور اب تو ٹانگ ہی ختم ہو گئی ہے کام نہیں کرتی حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے چلو درد ختم ہوا اب در د نہیں ہو گا میں نے کہا حضور ٹانگ ہی ختم ہو گئی۔
آپ نے فرمایا کہ کسی طریقہ سے بھی آپ خوش نہیں ہوتے ایک بات یاد رکھو کہ اللہ کے بندوں کے دم میں اثر ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اثر دیر بعد ہوتا ہے لیکن اس میں شک و شبہ نہیں کرنا چاہیے میں نے آپ سے معافی مانگی آپ نے تیل پر پھونک مار کر کہا کہ لے جاؤ اور جا کر ملتے رہو ٹھیک ہو جائے گی میں کچھ دیر تیل کی مالش کرتا رہا ٹانگ آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتی چلی گئی اور کچھ عرصہ کے بعد ٹانگ بالکل ٹھیک ہو گئی اور ابھی تک اس ٹانگ میں درد نہیں ہوا اس کے علاوہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات بے شمار ہیں جن کو یکجا کر کے لکھنا میرے بس کا کام نہیں کیونکہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی کرامات سے معمور ہے۔
٭۔مولوی محمد ٹھٹھ سوہلہ تحصیل پھالیہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب ہمارے ہاں تشریف فر ماتھے اور چوٹ کلاں جانا تھا حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ چلو چوٹ کلاں دوستوں کو ملنے کے لیے چلیں جب ہم اپنے گاؤں سے باہر نکلے تو عرض کیا حضور یہ راستہ جو آپ نے اختیار کیا ہے پر خطر ہے کیونکہ راستہ میں ڈیرہ پر کتوں کا جمگٹا ہے اور وہ راستہ سے گزرنے والے مسافروں کو چیر پھاڑ دیتے ہیں اس لیے یہ دوسرا راستہ اختیار کر لیا جائے آپ نے فرمایا نہیں اسی راستہ سے چلنا ہے میں نے عرض کیا حضور مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں کتے ہم پر حملہ نہ کردیں اور اس سے ہمیں کوئی نقصان نہ ہو آپ نے فرمایا اللہ کے بندوں کو کتوں سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
یہ سن کر میں خامو ش ہوگیا اور حضرت صاحب کے پیچھے پیچھے چلنے لگا ہم کتوں والے ڈیرے کے پاس پہنچے تو تمام کتوں نے مل کر بیک وقت ہم پر حملہ کر دیا۔ میرا خون خشک ہو گیا کہ پتہ نہیں اب کیا بنتا ہے لیکن حضرت صاحب کے پائے استقلال میں فرق نہ آیا جب کتے قریب آئے تو حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عصاء مبارک سے اشارہ کیا تمام کتے خاموش ہوگئے اور ادھر ادھر بکھر گئے میں حیران تھا کہ حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ایک ادنیٰ سے اشارہ سے اتنے زہریلے کتے خاموش ہو کر بکھر گئے۔
جب ہم چند قدم آگے چلے تو حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے کہ پیچھے کوئی کتا تو نہیں میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک کتا اینٹ پر ہماری طرف پشت کر کے بیٹھا ہو ا تھا میں نے عرض کیا حضور ایک کتا پیچھے بیٹھا ہوا ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جاؤ اس کتے کو کہہ دو کہ سیّد عابد علی شاہ کہتے ہیں کہ چلے جاؤ میں نے قریب جا کر حضرت صاحب کے کہے ہوئے الفاظ دہرائے وہ یہ سن کر بھاگ کھڑا ہوا اور دور چلا گیا میں یہ منظر دیکھ کر حیرا ن رہ گیا۔
٭۔ ملک فقیر سائیں ساکن شادیوال سیالکوٹ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ ہمارے ہاں بڑھاپے میں دو جڑواں بچے پیدا ہوئے عورتیں چونکہ مختلف رسومات کی قائل ہوتی ہیں۔مثلاً اگر تین لڑکیوں کے بعد لڑکا پیدا ہو تو اس کو تکل سمجھ کر روڑی پر لٹایا جاتا ہے یا اسی قسم کی کچھ اور رسومات ادا کی جاتی ہیں جن کا دین اسلام میں کوئی جواز نہیں ہوتا۔ اس لیے میری والدہ نے ہمیں جڑواں ہونے ہونے کی وجہ سے ایک بچے کا ایک کان اور ناک میں سوراخ کر کے دھاگہ ڈال دیا تاکہ کسی کی نظر نہ لگے یا یہ محفوظ رہیں ان دنوں پیر سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ہاں تشریف لائے میرے والد نے انہیں اپنے گھر بلایا اور دونوں بچوں کو دکھلایا آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس بچہ کو دیکھا جس کے کان اور ناک میں دھاگہ تھا فرمانے لگے یہ کیا میری والدہ نے کہا جناب عالی یہ بد نظری سے محفوظ رہنے کے لیے ہے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمانے لگے ”اللہ کو دھوکہ دیتے ہو“۔
حالانکہ جو پیدا کرنے پر قادر ہے وہی ان کو تمام آفات و بلیات سے محفوظ بھی رکھ سکتا ہے آپ نے سب سے پہلے وہ دھاگے قینچی سے کتروا کر اتروا دئیے اور پھر اسی بچہ پر اپنا عصا ء مبارک رکھ کر فرمانے لگے اس کا نام فقیر سائیں رکھو جب دوسرے بچے کا نام پوچھا گیا تو فرمانے لگے اس کا نام پھر رکھیں گے کافی اسرار کیا گیا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا نام نہ رکھا کچھ دنوں کے بعد وہ بچہ فوت ہوگیا۔ اور فقیر سائیں تا حال حیات دوکانداری کر رہا ہے فقیر سائیں بیان کرتا ہے کہ میں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامت ہوں۔
٭۔ پیر سیّد چراغ علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول:
آپ فرماتے تھے کہ میں ایک جاہل زمیندار تھا جس کو سوائے مویشی چرانے اور زمین کاشت کرنے کے علاوہ کسی چیز کا علم نہیں تھا ”یعنی میں جٹ تھا“۔لیکن شیخ المشائخ سیّد راجن علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی نگاہ سے پیر بن گیا۔
نگاہ ولی میں تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ جب اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر ہمارے علاقہ میں آتے تو جس گاؤں کے قریب سے گزرتے لوگ آپ کی قدم بوسی کے لیے جمع ہو جاتے اور بیٹھے ہوئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے ادب کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور پورے علاقہ میں رعب کا یہ عالم تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے بڑے سے بڑے آدمی کو بھی بولنے کی جرات نہ ہوتی آپ کی خدمت میں جب کوئی روتا ہوا بچہ لایا جاتا تو وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دم کرنے سے ہنستا ہوا واپس جاتا بیمار آپ کی خدمت میں آکر شفاء پاتے تنگدست آتے تو تنگ دستی دور کرا کے جاتے حاجت مند آتے تو حاجتیں پوری کراکے جاتے آپ فرماتے تھے کہ میں مریض پر دم کرتا ہوں تو اپنے شیخ کا نام لے کر،کسی کے لیے دعا کر تا ہوں تو پہلے اپنے شیخ کو یاد کرتا ہوں یہ تھا شیخ کی محبت کا اثر اسی لیے میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کھڑی شریف والے فرماتے ہیں:
ہر مشکل دی کنجی یارو ہتھ والیاندے آئی
ولی نگاہ کرن جس ویلے مشکل رہے نہ کوئی
٭۔ مرزا جہانگیر احمد ساکن ٹھٹھی سرخ پور گجرات بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جناب قبلہ
عالم سیّد عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سرخ پور ماسٹر عبداللہ خان صاحب کے گھر تشریف فرما تھے اور سیّد چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بھی آپ کے ہمراہ تھے ان دنوں میری غربت کا یہ حال تھا کہ نہ تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر آتا اور نہ پیٹ بھرنے کو روٹی۔ میں حضرت صاحب کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کی جناب میرے لیے دعا فرمائیں آپ رحمۃ اللہ علیہ خاموش رہے پھر دوسری دفعہ عرض کیا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ خاموش رہے تیسری دفعہ عرض کیا لیکن حضرت صاحب نے کوئی جواب نہ دیا خیر میں خاموش ہوگیا کچھ وقت کے بعد حضرت قبلہ عالم رحمۃ اللہ علیہ سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو فرمانے لگے کہ چلو سمبلی جٹاں چلیں۔
سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے میں بھی ساتھ چل دیا جب حضور سرخ پور اور سمبلی جٹاں کے درمیان پہنچے تو رک گئے اور سید چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے فرمانے لگے شاہ صاحب اس شخص کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کی مشکلات کو آسانی میں بدل دے چراغ علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ بولے حضور دعا آپ فرمائیں میں تو ساتھ غلام ہوں اور غلام کی آقا کے سامنے کیا مجال ہوتی ہے یہ سن کر حضرت قبلہ عالم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئے اور فرمایا یا اللہ اس کی سختی کو دور فرما کر اس کو جملہ مشکلات سے نجات دے۔ آمین ثم آمین۔مرزا جہانگیر احمد بیان کرتا ہے کہ اس دن سے اللہ تعالیٰ نے ہماری تنگ دستی کو دور فرما دیا اور آج تک خوشحال ہوں۔
یہ تھیں حضرت صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کرامات جن کو میں نے بڑی محنت سے حاصل کر کے جمع کیا ہے میرے دل میں ہمیشہ یہ جستجو رہتی تھی کہ اپنے پیر خانہ کے اولیاء کرام کی زندگیو ں کے حالات قلمبند کروں اور ان کو ایک کتاب کی شکل دے کر منظر عام پر لاؤں تا کہ دنیا اس سے مستفیض ہو۔ کیو نکہ صالحین کی زندگیوں میں ہدایت ہے حضرت پیر سیّد عابدعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ پر وقار با رعب اور بڑی جلالت والے بزرگ تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ دن رات اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے۔
٭۔ خلفاء:
(۱)۔ سیّد اعظم علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔(جو آپ کے بعد مسند خلافت پر فائز ہوئے)
٭۔ وصال شریف:
آپ رحمۃ اللہ علیہ ۱۱ جمادی الاول ۳۹۳۱ ہجری بمطابق ۳۱ جون ۳۷۹۱ ء موافق ۱۳ جیٹھ بروز بدھ وار عشاء کی نماز کے بعد ذکر حق کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
٭۔ حضرت صاحب زادہ سیّد اعظم علی شاہ صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ: ”میں نے حضرت قبلہ عالم اپنے والد حضرت عابد علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے وصال کے بعد عالم رؤیا میں دیکھا تو عرض کیا حضور! اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ فرمانے لگے اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیا پھر عرض کیا کہ حضور اس وقت آپ کہاں ہیں فرمانے لگے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دربار میں پھر عرض کیا کہ حضور آپ کو حضور نبی کریم ﷺ کی زیار ت کا شرف بھی حاصل ہوا ہے فرمانے لگے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دربار عالیہ کی حاضری کے بعد حضور نبی کریم ﷺ کے دربار میں حاضری ہوگی۔
[/pl_text][/pl_col][/pl_row][pl_row pagelayer-id=”mrhj7XXwFjOqfCLa” 0=””][pl_col pagelayer-id=”idh2ITBLWMLW0umC” col=”12″][pl_text pagelayer-id=”bbgqJywYahuKvwyS” 0=””] [/pl_text][/pl_col][/pl_row]